1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل: منی بس پر خود کُش حملہ، 14 ہلاک

کشور مصطفیٰ20 جون 2016

کابل سے موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغان دارالحکومت میں پیر کی صُبح نیپالی سکیورٹی گارڈز کی ایک بس پر ہونے والے خود کُش حملے میں کم از کم 14 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1J9ix
Afghanistan Selbstmordanschlag auf Kleinbus in Kabul
افغان حکومتی اہلکاروں کے مطابق اس حملے میں مزید آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیںتصویر: Reuters/M. Harooni

افغان حکومتی اہلکاروں کے مطابق اس حملے میں مزید آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ایک ترجمان صدیق صدیقی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں تحریر کیا ہے، ’’ابتدائی رپورٹ کے مطابق آج کا دہشت گردانہ حملہ کابل میں ہوا جس کے نتیجے میں 14 افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیں اور آٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس ہلاک ہونے والوں کی شناخت کی کوششیں کر رہی ہے۔‘‘ اطلاعات کے مطابق خوُد کُش حملہ آور پیدل تھا اور وہ منی بس کے انتظار میں کھڑا تھا، جس پر نیپالی گارڈز سوار تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا کے ذریعے قبول کر لی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ حملہ پیر کو مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے کے قریب کابل کے مشرق میں جلال آباد کو جانے والی مرکزی سڑک کے قریب ہوا ہے۔ رواں سال رمضان کے دوران کابل میں ہونے والا یہ پہلا حملہ ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اس سے قبل 19 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں 64 جانیں ضائع ہوئی تھیں جبکہ 340 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اُس خونریز حملے کی ذمہ داری بھی افغان طالبان ہی نے قبول کی تھی جو 2001ء میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے مغرب نواز کابل حکومت کے خلاف بغاوت اور جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حال ہی میں واشنگٹن انتظامیہ نے افعانستان میں طالبان کے خلاف فضائی حملے کے لیے ہندو کُش کی اس ریاست میں اپنی فوجی قوت میں اضافے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد افغانستان کی قومی فورسز کو واضح طور پر تقویت فراہم کرنا ہے جس کے پاس طالبان کے خلاف فضائی کارروائیوں کے لیے موجود وسائل محدود ہیں۔

Afghanistan Grenzpolizei Grenze zu Pakistan
2015 ء کے بعد سے افغانستان میں امریکی فوج کا کردار مشاورتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

یاد رہے کہ 2015 ء کے بعد سے افغانستان میں امریکی فوج کا کردار مشاورتی ہے اور اُسے طالبان کو مارنے کی اجازت محض اپنے دفاع یا افغان فوجیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی صورت میں ہے۔

اس ضمن میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کا مقصد یہ ہوگا کہ امریکی فوجی مقامی افغان جنگجوؤں کے ساتھ مزید قریبی تعاون سے طالبان پر حملہ کر سکیں گی۔ طالبان افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیوں کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید