1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل حکومت بد نیت ہے، حکمت یار

عدنان اسحاق27 جون 2016

افغان حکومت کو پہلے ہی ملک میں جاری شدت پسندی پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے، اس صورت حال میں سابق افغان جنگجو کمانڈر گلبدین حکمت یار نے کابل انتظامیہ پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JEXN
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/A. Kenare

حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کی تنظیم اور کابل حکام کے مابین، جس امن معاہدے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، اس کا امکان اب عملی طور پر ختم ہو گیا ہے۔ حکمت یار نے افغانستان کے ایک اخبار روزنامہ شہادت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت غیر قانونی ہے اور وہ اسے کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔

گلبدین حکمت یار کا یہ طویل تنقیدی انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب حزب اسلامی نے افغان حکومت کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کے مسودے میں تبدیلی کرتے ہوئے نئی شرائط متعارف کرائی ہیں۔ ان میں سے ایک امریکا کے ساتھ دفاع کے شعبے میں ہونے والے معاہدے کو ختم کرنا اور غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے حوالے سے حتمی تاریخ کا طے کیا جانا شامل ہے۔

Afghanistan Gespräche High Peace Council & Gulbuddin Hekmatyar
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/H. Sabawoon

اس تناظر میں حکمت یار کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے ان کو مطلع کیا ہے کہ جہاں تک امریکا سے سکیورٹی معاہدے کا تعلق ہے وہ اسے ختم نہیں کرسکتے یعنی وہ یہ سرخ لکیر عبور کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ان کے بقول ان کی بہت کم ہی شرائط افغان حکومت نے تسلیم کی ہیں۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب گزشتہ ماہ حکمت یار کے نمائندے کابل میں بات چیت مکمل ہونے کے بعد تیار کی جانے والی دستاویز پر متفق تھے اور وہ صرف دستخط کرانے کے لیے اس دستاویز کو حکمت یار کے پاس لائے تھے۔ اس کے بعد حکمت یار نے نئی شرائط کے ساتھ یہ مسودہ کابل حکام کو دوبارہ بھیج دیا۔

افغان صدر اشرف غنی کو امید تھی کہ حکمت یار کے ساتھ امن معاہدہ کے بعد دیگر شدت پسند تنظیموں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد ملے گی۔ حکمت یار ملک کے مشرقی اور شمال مشرقی حصے میں فعال ہیں۔ طالبان ان سے زیادہ با اثر ہیں اور حزب اسلامی کے جنگجوؤں اور طالبان کے مابین جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔