1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ

عبدالستار، اسلام آباد
7 نومبر 2017

افغانستان کے شہر جلال آباد میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک رکن رانا نیئر اقبال کے قتل پر پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس قتل سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/2nBtc
Grenzzaun zwischen Afghanistan und Pakistan
تصویر: Reuters/C. Firouz

پاکستانی صدر ممنون حسین اور وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس قتل کی پر زور مذمت کی ہے جب کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس قتل پر افغانستان سے احتجاج بھی کیا ہے۔ نیئر اقبال کا نمازِ جنازہ آج سات نومبر کو اسلام آباد میں ادا کیا گیا، جس میں وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف اور کئی اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی۔ بعد ازاں انہیں اسلام آباد کے ایک مقامی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
کئی سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں اس افسوناک قتل سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی آئے گی۔ پاکستانی سینٹ کے رکن عثمان کاکڑ نے اس قتل پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے اور افغانستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سمیت کئی امور پر پہلے ہی کشیدگی چل رہی تھی اور اب اس میں مزید شدت آئے گی۔ پہلے یہاں افغانستان کے ایک صوبے کے ڈپٹی گورنر اور ان کے رشتہ داروں کو اغواء کیا گیا اور بعد میں یہ افسوناک واقع رونما ہوا۔ دونوں ممالک کو اپنے تعلقات میں بہتری لانا ہوگی اور مل جل کر اختلافات کو حل کرنا ہوگا تاکہ خطے میں امن ہوسکے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’افغانستان میں صدر اشرف غنی نے اپنی پارلیمنٹ، کابینہ اور عوام کو ناراض کر کے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن افغانستان میں حملے کم ہونے کی بجائے اور شدید ہوگئے، جس کی وجہ سے اشرف غنی کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب تک اسلام آباد دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے ختم کرنے کے عالمی مطالبے کو پورا نہیں کرتا، افغانستان میں امن ممکن نہیں ۔‘‘
لیکن کئی دوسرے تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان پر الزام تراشی بلاجواز ہے۔ معروف تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس قتل پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی حکام نے اس بات کی چانچ پڑتال کی کہ آیا جن افغان حکام کے پاکستان آنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے وہ یہاں آئے بھی تھے یا نہیں۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے کوئی بندے یہاں علاج یا کسی اور مقصد کے لیے نہیں آئے۔ تاہم پاکستانی اہلکار، جن کو شہید کیا گیا، وہ تو ایک بہت محفوظ علاقے میں رہ رہے تھے۔ ان کا قتل اس بات کا غماز ہے کہ وہاں بھارتی موجودگی بڑھ رہی ہے ۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکا بھارت کو افغانستان میں کوئی کردار دینا چاہتا ہے لیکن ایسا کردار دینے کی صورت میں وہاں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوگا: ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا بھارت کو کوئی بھی کردار کیوں دینا چاہتا ہے۔ بھارت کی افغانستان سے سرحد نہیں ملتی، وہ یہاں بیٹھ کر ایک طرف ہمارے خلاف سازش کرے گا اور دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر بھی ہمیں خون میں نہلانے کی کوشش کرے گا۔ بھارت اور اس کے پروردہ افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔ جب مغربی ذرائع خود اعتراف کرتے ہیں کہ افغانستان کے پچاس فیصد سے زائد حصے پر طالبان کی عملداری ہے، تو پھر پاکستان پر الزام تراشی کا کیا جواز ہے۔ امریکا نے اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ اس عملداری کو ختم کیوں نہیں کیا۔‘‘

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں