1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈےٹَن امن معاہدے کے بیس برس

عابد حسین14 دسمبر 2015

بیس برس قبل یورپ میں مسلح تنازعے کے خاتمے کی ڈیل پر امریکی ریاست اوہائیو کے ڈے ٹن ایئر بس پر دستخط کیے گئے تھے۔ امریکا اور یورپی یونین سمیت اہم یورپی ملکوں کے نمائندے بھی دستخط کی تقریب میں موجود تھے۔

https://p.dw.com/p/1HMrE
ڈے ٹن ایگریمنٹ کے تین فریقین: بوسنیائی لیڈر علیجاہ عزت بیگووچ، سربیائی رہنما سلابوڈان میلوسووچ اور کروٹشیائی لیڈر فرانثو ٹوڈژمانتصویر: picture-alliance/dpa/J. Ruthroff

بوسنیائی تنازعے کے تین فریقوں نے چودہ دسمبر سن 1995 کو اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اِس امن ڈیل کے نتیجے میں اُس خون ریز تنازعے کا خاتمہ ہوا تھا، جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ڈے ٹَن ایگریمنٹ کے نتیجے میں بوسنیا منقسم ہو گیا اور حکومتی عمل میں مختلف نسلوں کو شامل کرنےکا اصول طے کر دیا گیا۔ دو دہائیوں کے بعد اِس معاہدے کے لیے بوسنیائی، کروشیائی اور سربیائی لوگوں نے کسی پرجوش تقریب کا اہتمام نہیں کیا۔ یہ امر اہم ہے کہ آج بھی بوسنیا میں نسلی تقسیم شدت سے پائی جاتی ہے۔

اِسی معاہدے کے نتیجے میں تین سالہ مسلح اور خونی چپقلش کا خاتمہ ممکن ہوا تھا۔ لڑائی کے فریق سرب، کروشیا اور بوسنیا تھے۔ اِس ڈیل کے تحت توپوں کی گھن گرج، ٹینکوں کی شیلنگ اور دو طرفہ فائرنگ کا خاتمہ ہوا اور معصوم انسانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ رک گیا۔ اِس تین سالہ لڑائی میں ہلاک شدگان میں اکثریت بوسنیائی مسلمان تھے۔ معاہدے کے تحت بوسنیا کو دو خود مختار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ان میں ایک سرب جمہوریہ اور دوسرے کو بوسنیا کروشیا فیڈریشن کا نام دیا گیا۔

Timeline Zerfall Jugoslawien Alija Izetegovic Franjo Tudjman und Slobodan Milosevic Treffen in Dayton USA
ڈے ٹن ایگریمنٹ کے لیے اوہائیو میں منعقدہ اجلاس کی فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

مبصرین کا خیال ہے کہ اِس ایگریمنٹ کے تحت وجود میں آنے والی نئی ریاست آج بھی مختلف نسلوں کے اندر پائی جانے والی شدید قوم پرستانہ رجحانات کے چنگل میں دکھائی دیتی ہے۔ اِس کے باوجود گزشتہ بیس برسوں میں جوان ہونے والی نسل یقین رکھتی ہے کہ ماضی کے مسلح اختلافات سے وہ اپنا مستقبل تباہ نہیں ہونے دے گی۔ دو دہائیوں کے دوران لاکھوں ڈالر کی امداد بھی معاشرتی ادغام میں کوئی واضح اور مثبت کردار ادا نہیں کر سکی اور قوم پرستی کے رجحانات میں کمی نہیں دیکھی گئی۔ مبصرین کے مطابق جنگ اور معاہدے کے مقاصد تاحال دور کی کوڑی دکھائی دیتے ہیں۔

ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ڈے ٹَن ایگریمنٹ کے فریق اپنی اپنی شناخت کے عمل میں ہیں۔ ریاست میں بوسنیا کے مسلمان تمام تر اختیارات کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ کروشیائی باشندے شناخت کے حصول کا خواب لیے پھر رہے ہیں جبکہ سرب لوگ ریاست کو بہتر بنانے کے ہر عمل کی پوری قوت سے مخالفت کرنے سے نہیں چوکتے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اِس صورت حال نے کرپشن کو فروغ دیا ہے اور اصلاحاتی عمل سست ہونے کی وجہ سے ریاست، اداروں کی تشکیل میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اسی باعث اقتصادی سرگرمیاں سکڑتی جا رہی ہیں اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈے ٹَن ایگریمنٹ کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی مبصر اور آسٹرین سفارت کار ویلٹین اِنزکو کا کہنا ہے کہ لوگ اب امن سے کچھ زیادہ کے متمنی ہیں اور بوسنیائی لیڈروں کو مستقبل کے ریاستی ڈھانچے کی ازسرنو دریافت اور تشکیل کرنے کی ضرورت ہے۔