ڈیرہ غازی خان دھماکہ، کشیدگی برقرار
6 فروری 2009جمعہ کے روز مشتعل مظاہرین نے دینی مدرسوں اور نجی عمارتوں پر پتھراؤکیا جبکہ ایک پولیس چوکی کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے پولیس کی اضافی نفری طلب کر لی گئی۔ میانوالی، جھنگ اور لاہور سمیت ملک کے کئی دیگر علاقوں میں بھی ڈیرہ غازی خان کے سانحے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کی نماز جنازہ سخت ترین حفاظتی انتظامات کے دوران ادا کی گئی۔ ہلاک ہونے والوں کی تدفین ان کے آبائی علاقوں میں کر دی گئی ہے۔
نماز جنازہ میں شریک عثمان نامی ایک نوجوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ تین دن کے لئے سوگ کا اعلان کیا گیا ہے اور تین دن تک مارکٹیں بند رہیں گی اور آج تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے بھی بند رہے ہیں۔ عمومی طور پر لوگ گھروں سے باہر بھی نہیں نکلے۔ ان کے مطابق سڑکیں ویران اور سنسان تھی عام آدمی خوف محسوس کر رہا ہے اور اب بھی بہت زیاد ہ ڈرا ہوا ہے۔
اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں سرکاری طور پر متفر ق اعداد و شمار بتائے جا رہے ہیں تاہم غیر جانب دار حلقے کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 32 تک پہنچ چکی ہے۔
پولیس نے ایک کالعدم مذہبی تنظیم کے کارکنوں سمیت دو درجن کے قریب افراد کوگرفتار کر لیا ہے۔ تفتیش کرنے والے بعض پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ابتدا ئی شواہد کے مطابق خود کش بمبار قبائلی علاقوں کا رہائشی معلوم ہوتا ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے حوالے سے ڈی آئی جی ڈیرہ غازی خان مبارک اطہر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ تحقیقات میں جو پیش رفت ہے اس میں سپیشل ٹیمیں بنائی گئی ہیں اور اس کے لئے سی آئی ڈی کے افسران لاہور سے پہنچ چکے ہیں اور ڈی جی خان سے بھی اچھی شہرت اور تجربہ رکھنے والے افسران کو تفتیشی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موقع واردات سے خود کش بمبار کا سر مل گیا ہے اور اسے قبضہ میں لے کر ڈی این اے کے ٹیسٹ کی سیمپلنگ کر لی گئی ہے۔ ان کے مطابق خود کش بمبار کی عمر تقریباً بیس سال کے قریب ہے اور اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی بھی رکھی ہوئی ہے۔
ادھر پنجاب اسمبلی نے بھی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ڈیرہ غازی خان پر ہونے والے خود کش بم دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔