1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاکٹر قدیر خان کا ’’حفاظتی پروٹوکول‘‘ ختم

28 اگست 2009

ڈاکٹر خان نے کالعدم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر فراہم کردہ پروٹوکول کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں جو درخواست دائر کی تھی، اس کے تحت انہیں گھر چھوڑنے یا کہیں جانے سے کم از کم 12 گھنٹے پہلے حکام کو اطلاع دینا پڑتی تھی۔

https://p.dw.com/p/JKqP
تصویر: AP

ڈاکٹر قدیر خان نے یہ درخواست معروف قانون دان ایس ایم ظفر کے ذریعے دائر کی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے مختصر سماعت کے بعد ہی اپنے فیصلے میں پروٹوکول کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ ڈپٹی اٹارنی انسپکٹر جنرل اسلام آباد اور ضلع مجسٹریٹ کو وضاحت کےلئے 4 ستمبر کو طلب کر لیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد E-7 سیکٹر میں ڈاکٹر قدیر کے گھر دن بھر مہمانوں کا تانتا بندھا رہا۔ جن میں ذرائع ابلاغ بھی پیش پیش تھے۔ ڈاکٹر خان نے بعد ازاں ڈوئچے ویلے کےلئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ماضی میں انہیں زیر عتاب رکھنے والے حکام نے ان کے ساتھ کئی مرتبہ ہتک آمیز سلوک کیا اور یہ سلوک پروٹوکول کے نام پر بھی جاری رکھا گیا یہی وجہ تھی کہ وہ اس نام نہاد سہولت سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔

Abdul Qadeer Khan
جوہری ہتھیاروں کی بلیک مارکیٹ سےمبینہ تعلق رکھنے والے بدنام پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خانتصویر: picture-alliance/dpa

اُنہوں نے بتایا:”پہلے پروٹوکول کے بہانے سے شرارت کی گئی اور اسے بدمعاشی کہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ میں اس وقت پوری طرح کا قیدی ہی تھا۔ جب میں بازار جانا چاہوں تو حکام کہتے تھے، ہمیں 12 گھنٹے پہلے بتایا جائے۔ اس کے بعد چار گاڑیاں اور ساتھ پندرہ بیس آدمی آگے پیچھے کھڑے ہوئے، راستہ روکے ہوئے،کہیں بھی نہیں جانے دیتے تھے۔“

تاحال معلوم نہیں ہو سکا کہ حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرے گی کہ نہیں اور یہ کہ تمام ایٹمی معاملات کا ذمہ دار ادارہ سٹریٹجک پلانز ڈویژن بھی اس حوالے سے کوئی تحفظات رکھتا ہے یا نہیں کیونکہ بنیادی طور پر ڈاکٹر قدیر خان پر پابندیاں اور ان پر عملدرآمد کی ذمہ داری سٹریٹجک پلانز ڈویژن کی تھی۔ قدیر خان کا کہنا تھا کہ ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وہ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی آزادی پر مزید پابندیاں برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں۔

اِس حوالے سے ڈاکپر قدیر خان نے کہا:”چیف جسٹس بہت با اصول اور بہادر شخص ہیں۔ مجھے اس بارے میں ان کے سامنے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ مجھے امید ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے ہی یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہمیں کوئی پروٹوکول نہیں چاہئے، ہم پہلے بھی آزاد شہری تھے، اب بھی آزاد شہری ہیں۔ ہم جہاں آنا جانا چاہیں، ہمیں آزادی ہونی چاہئے، ہمارا کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔“

ڈاکٹر قدیر خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ حفاظتی تدابیر بہتر ہوتی ہیں تاہم بقول ان کے زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی لئے وہ کسی غیر ضروری پروٹوکول کے محتاج نہیں۔ ڈاکٹر خان کے مطابق پاکستان کے وسیع تر مفاد میں انہوں نے ایٹمی پروگرام کے متعلق نہ تو پہلے کوئی لب کشائی کی اور نہ ہی آئندہ کریں گے تا کہ مشکل میں گھرا ملک مزید مشکلات کا شکار نہ ہو۔

رپورٹ: امتیاز گل، اسلام آباد

ادارت: امجد علی