1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں سی آئی اے کی سرگرمیوں پر کڑی ضرب

21 مئی 2017

ایک امریکی اخبار کے مطابق چینی حکومت نے انتہائی منظم طریقے سے اپنے ملک میں امریکی خفیہ کارروائیوں کا قلع قمع کیا ہے۔ اعلٰی امریکی اہلکاروں نے اسے انٹیلیجنس کے شعبے میں کئی دہائیوں کا سب سے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2dJFJ
USA Lobby der CIA Hauptquartier in Langley, Virginia
تصویر: Reuters/L. Downing

اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق 2010ء اور 2012ء کے دوران چین میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے بیس سے زائد مخبروں کو ہلاک کیا گیا یا پھر حراست میں لے لیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز نے یہ رپورٹ امریکی حکومت کے چند موجودہ اور سابق اہلکاروں کے حوالے سے تیار کی ہے، جنہوں نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر یہ اطلاعات فراہم کیں۔ ان واقعات کے بعد چین میں سی آئی اے کی سرگرمیاں انتہائی محدود ہو گئی تھیں۔

تاہم اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ چینی حکام مخبروں تک پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوئے۔ سی آئی اے کے تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ اس ادارے کے بیرون ملک خفیہ رابطوں کے نظام کی ہیکنگ ممکن ہے۔ بیجنگ میں امریکی سفارت خانے کے تمام ملازمین کی جانچ پڑتال کی گئی۔ امریکی ماہرین نے اسے کئی دہائیوں کے دوران انٹیلجنس کے شعبے میں ہونے والا بہت بڑا نقصان قرار دیا ہے۔

سی آئی اے کے تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ اس ادارے کے بیرون ملک خفیہ رابطوں کے نظام کی ہیکنگ ممکن ہے
تصویر: picture alliance/dpa/K.-J. Hildenbrand

اس سے قبل سابق سوویت یونین اور روس کے لیے کام کرنے والے دو بدنام جاسوسوں ایلڈرش امیز اور روبرٹ ہینسن کی گرفتاریوں سے بھی امریکی خفیہ اداروں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ امیز سی آئی اے کے ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ سوویت خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے کام کرتے تھے۔ انہیں 1994ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسی طرح ہینسن وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی میں رہتے ہوئے روس کو خفیہ معلومات مہیا کرتے تھے۔ انہیں2001 ء میں ریاست ورجینیا میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا اور آج کل وہ کولوراڈو کے قریب ایک جیل میں قید کاٹ رہے ہیں۔ انہیں پندرہ مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

یہ بات حقیقت ہے کہ مغربی ممالک کے خفیہ اداروں کو چین اور روس میں اپنے نیٹ ورک بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی تازہ رپورٹ پر ابھی تک سی آئی اے اور ایف بی آئی کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔