’چڑیل‘ تو خیر کیا مرتی، خوف جی اٹھا
20 ستمبر 2015مشرقی بھارت میں پیش آنے والے اس واقعے میں چڑیلوں کو مارنے والے اس گروہ کے حملے اور اپنے خاندان کی چیخیں آج بھی اس نوجوان کو خوف سے بے چین کیے دے رہی ہیں۔ یہ نوجوان اب بھی اس واقعے کو یاد کر رہا ہے، جب ایک دور افتادہ گاؤں میں ایک گروہ نے اس کے گھر پر حملہ کیا اور وہ کئی گھنٹوں تک اندھیری رات میں جان بچانے کے لیے بھاگتا رہا۔ اُڑیسہ ریاست میں پیش آنے والے اس واقعے میں اپنے گھر سے چھپ کر بھاگ نکلنے کی وجہ سے یہ اس گروہ سے بچ گیا، مگر خوف کا تعاقب اب بھی جاری ہے۔
جولائی میں پیش آنے والے اس واقعے کے حوالے سے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے گنیتا کا کہنا تھا، ’مجھے یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے بچنے میں کامیاب ہو گیا۔‘
اس واقعے میں گنیتا کے ماں باپ کے علاوہ اس کے چار بہن بھائی بھی ہلاک کر دیے گئے تھے، جن میں ایک تین سالہ بچہ بھی شامل تھا۔
اس گاؤں کے لوگوں نے اس گھر پر حملہ اس لیے کیا کیوں کہ گنیتا کی والدہ کے بارے میں گاؤں میں مشہور ہو گیا تھا کہ وہ چڑیل ہے اور اس کی وجہ مقامی بچوں میں ایک بیماری کا پھیلاؤ تھا، جس کا الزام اس عورت پر عائد کیا گیا تھا۔
بھارت کے دیہی علاقوں میں اس طرز کے حملے اور ہلاکتیں ایک معمول کی بات ہیں اور ہر سال درجنوں افراد ایسے حملوں میں مارے جاتے ہیں۔ ان واقعات میں ہلاکتوں پر حکام کو شدید تنقید کا سامنا رہتا ہے، تاہم مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
اس علاقے کے لوگوں کا الزام تھا کہ گنیتا کی ماں کالا جادو کرتی ہے اور اسی کی وجہ سے علاقے میں بچوں میں ایک متعدی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ گنیتا نے بتایا، ’بس یہ لوگ نعرے لگا رہے تھے، چڑیل کو مارو چڑیل کو مارو اور یہ کہتے ہوئے یہ ہمارے گھر میں گھس گئے۔‘
’’میں کسی طرح ان کے چنگل سے نکل گیا اور پھر بھاگنا شروع کر دیا۔ میرا پیٹ میں چاقو کا زخم تھا، مگر میں نے پرواہ نہیں کی اور بھاگتا رہا۔‘