1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چند ہی دنوں ميں ہزاروں افغان شہريوں کی وطن واپسی

عاصم سلیم
12 جنوری 2017

سن 2017 کے پہلے ہفتے ميں تقريباً ساڑھے نو ہزار افغان شہريوں نے واپس اپنے ملک کا رخ کيا ہے۔ اس پيشرفت کے نتيجے ميں ايسے خدشات سامنے آ رہے ہيں کہ حکام واپس لوٹنے والے باشندوں کے لیے سہوليات کی فراہمی کس طرح ممکن بنائيں گے۔

https://p.dw.com/p/2VgSF
Afghanistan - Land und Leute
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے تھومسن روئٹرز فاؤنڈيشن کی برطانوی دارالحکومت لندن سے بارہ جنوری کے روز موصولہ رپورٹوں کے مطابق رواں سال کے پہلے ہفتے ميں ايران اور پاکستان سے 9,400 افغان شہری واپس اپنے ملک پہنچے۔ اقوام متحدہ نے واپس افغانستان لوٹنے والوں کو بنیادی سہوليات کی فراہمی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کيا۔ ان ميں بھاری اکثريت ايسے افراد کی ہے، جن کا کہيں اندراج نہيں ہوا ہے، نتيجتاً انہيں بنيادی سہوليات کی فراہمی بھی ايک مسئلہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ايجنسی برائے ہجرت (انٹرنيشنل آرگنائزيشن فار مائگريشن) (IOM) کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سن 2016 سے لے کر اب تک پاکستان اور ايران سے مجموعی طور پر قريب سات لاکھ بغير اندراج والے افغان شہری اپنے آبائی ملک لوٹ چکے ہيں۔ افغان شہريوں کی وطن واپسی کا عمل ايک ايسے وقت جاری ہے جب طالبان، القاعدہ اور اسلامک اسٹيٹ جيسی شدت پسند تنظيموں سے لاحق خطرات آج بھی افغانستان ميں ايک حقيقت ہيں اور حکام کو وسائل کی شديد کمی کا سامنا ہے۔ يہ امر بھی اہم ہے کہ سن 2014 کے اواخر ميں افغانستان سے غير ملکی افواج کے ايک بڑے حصے کے انخلاء کے بعد سے وہاں شہريوں کی ہلاکت اور پر تشدد کارروائيوں ميں اضافہ نوٹ کيا گيا ہے۔

اقوام متحدہ کے ايجنسی برائے ہجرت (IOM) کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے ايک ہفتے کے دوران بغير اندراج والے 1,643 افغان شہری پاکستان سے جب کہ 7,776 شہری ايران سے واپس افغانستان لوٹے۔ ادارے نے يہ امکان بھی ظاہر کيا ہے کہ آئندہ دنوں ميں موسم ميں بہتری کے ساتھ اس تعداد ميں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ واپس لوٹنے والے اکثريتی طور پر نوجوان مرد ہيں۔ انٹرنيشنل آرگنائزيشن فار مائگريشن کے مطابق يہ وہ نوجوان ہيں جو يورپ ہجرت کے ليے نکلے تھے يا وہ کام کی تلاش ميں تھے ليکن انہيں ملک بدر کر ديا گيا۔

افغانستان ميں تعينات اقوام متحدہ کے ترجمان ميتھيو گريڈن کا کہنا ہے کہ ايسے افغان شہريوں کو کہ جن کے اندراج کا کہيں ريکارڈ نہ ہو، وطن واپسی پر زيادہ چيلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ چونکہ انہيں باقاعدہ مہاجرين کی حيثيت حاصل نہيں، انہيں مالی امداد کے علاوہ تعليم و رہائش کی فراہمی کا حق بھی حاصل نہيں ہوتا۔

ميتھيو گريڈن نے اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے مزيد کہا، ’’افغانستان ميں کئی مقامات پر اب بھی لڑائی جاری ہے، جس سبب ملکی اقتصاديات اور نتيجتاً عوام کو سہوليات کی فرامی جيسے معاملات دباؤ کا شکار رہتے ہيں۔‘‘ ان کے بقول ان کا ادارے سرحدوں پر اپنے نيٹ ورک اور فراہم کی جانے والی سہوليات ميں توسيع کر رہا ہے تاکہ زيادہ سے زيادہ متاثرہ افراد اور خاندانوں کی مدد کی جا سکے۔

يو اين ايچ سی آر کی پاکستانی شاخ کے سربراہ اندريکا راٹواٹے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید