چرچ میں خواتین کے فیصلہ ساز کردار سے متعلق کمیشن کی تشکیل
3 اگست 2016ویٹیکن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی جانب سے کمیشن کے قیام کا فیصلہ ’’گہری عبادت اور انتہائی سوچ بچار‘‘ کے بعد کیا گیا ہے۔
کمیشن میں خواتین اور مردوں کا تناسب یک ساں رکھا گیا ہے، یعنی چھ مرد اور چھ خواتین، جن میں پادری، راہبائیں، ماہرینِ ادیان اور یونی ورسٹی کے پروفیسر شامل ہیں۔ آرچ بشپ فراسسکو لاداریا فیرر کمیشن کی سربراہی کریں گے۔
مئی کے مہینے میں پوپ فرانسس نے کلیسا سے تعلق رکھنے والے عہدے داروں کو بتایا تھا کہ وہ ایک ایسا کمیشن تشکیل دینے جا رہے ہیں جو اس بات پر تحقیق کرے گا کہ چرچ سے منسلک خواتین کو پادری سے ایک کم درجے پر مقرر کیا جا سکتا ہے یا نہیں، اور اس حوالے سے چرچ کے ابتدائی ادوار کا بھی مطالعہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ کیتھولک چرچ میں خواتین کو پادری، اس سے ایک درجے کم، یا کسی بھی فیصلہ ساز حیثیت میں مقرر نہیں کیا جاتا ہے۔
کمیشن خاص طور پر اس بات پر تحقیق کرے گا کہ ابتدائی کیتھولک کلیسا میں خواتین نے کیا کردار ادا کیا تھا۔ اسکالرز اس بات پر متفق نہیں کہ آیا ابتدائی ادوار میں پادری سے ایک درجے کم پر فائز خواتین اسی درجے پر مردوں کے مساوی اختیارات رکھتی تھیں یا ان کا کام صرف خواتین سے منسلک امور ہی سے تھا۔
'ڈیکنز‘ کیتھولک ماس کی سربراہی نہیں کر سکتے، تاہم وہ تبلیغ کرنے اور بیپٹزم کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ خواتین کو یہ کام کرنے سے صدیوں پہلے روک دیا گیا تھا۔
پاپائے روم کی کاوشوں کی خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والوں نے پذیرائی کی ہے۔ ویمنز آرڈینیشن کانفرنس نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ یہ امریکا میں قائم ایک ادارہ ہے جو خواتین کے پادری بننے کی وکالت کرتا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ پوپ فرانسس کا فیصلہ ویٹیکن کی جانب سے اپنی تاریخ کو سراہنے اور خواتین کو رہنمائی کے کردار میں دیکھنے کی جانب ایک اہم اقدام ہے۔
تنظیم نے کمیشن میں صنفی برابری رکھنے اور چرچ کے علاوہ عام شہریوں کی اس میں شمولیت کی بھی تعریف کی۔