1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چرچل، بنگال کے شديد قحط کے ذمے دار: نئے انکشافات

17 ستمبر 2010

برصغير ہندوپاک ميں برطانوی راج سے متعلق ايک نئی کتاب منظر عام پر آئی ہے جس کی مصنفہ کا دعوی ہے کہ برطانوی وزير اعظم ونسٹن چرچل نے جان بوجھ کرلاکھوں ہندوستانيوں کو بھوکا مار ديا تھا کيونکہ چرچل نسل پرست تھے ۔

https://p.dw.com/p/PDgK
برطانوی وزير اعظم ونسٹن چرچلتصویر: AP

سن 1943 ميں پڑوسی ملک برما پر جاپان کے قبضے کے بعد، جوہندوستان کے لئے چاول کی فراہمی کا بہت اہم ذريع تھا، بنگال ميں پڑنے والے قحط سے 30 لاکھ افراد مر گئے تھے۔ ہندوستان پر قابض برطانوی نوآبا دياتی آقا دوسری عالمی جنگ کے اس نازک مرحلے کے دوران اپنے فوجيوں اور جنگی کارکنوں کے لئے اناج ذخيرہ کرنے ميں مصروف تھے۔

ان حالات ميں عوام ميں بدحواسی پھيل گئی اور لوگوں نے اندھادھند چاول کی خريداری شروع کردی جس سے چاول کی قيمتيں آسمان سے باتيں کرنے لگيں۔ حکام نے بنگال ميں زيادہ تر کشتياں اور بيل گاڑياں ضبط يا تباہ کرلی تھيں تاکہ وہ بنگال پر جاپان کا قبضہ ہونے کی صورت ميں دشمن کے ہاتھ نہ لگ سکيں۔ اس کے ساتھ ہی چاول اچانک بازاروں سے ناپيد ہوگيا اور خاص طور پر ديہی علاقوں ميں بھوک نے ڈيرے ڈال ديئے۔ ليکن چرچل نے ہنگامی سطح پر اناج کے جہاز بھيجنے کی اپيلوں کو بار بار رد کرديا۔ لاغر افراد ہجوم در ہجوم کلکتہ ميں داخل ہونے لگے جہاں عينی شاہدوں نے مردوں کو گلی سڑی کھانے پينے کی اشیاء پر آپس ميں لڑتے اور ہڈيوں کا ڈھانچہ بن جانے والی ماؤں کو سڑکوں اور گليوں ميں مرتے ہوئے ديکھا جبکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی اور انگريز اپنے کلبوں اور گھروں ميں مزيدار کھانوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔

Indische Soldaten im Zweiten Weltkrieg Winston Churchill in Teheran
چرچل دوسری عالمی جنگ ميں ہندوستانی فوجيوں کے ساتھتصویر: AP

اس مصنوعی طور پر پيداکرہ قحط کو ايک طويل عرصے سے برطانوی راج کے تاريک ترين ابواب ميں شمار کيا جاتا ہے ليکن مدھوسری مکرجی کا کہنا ہے کہ انہيں ايسے شواہد ملے ہيں جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ چرچل بنگال کے اس شديد قحط کے براہ راست ذمے دارتھے۔ مکرجی کی کتاب "Churchill s Secret War يعنی "چرچل کی خفيہ جنگ" ميں ايسی دستاويزات پيش کی گئی ہيں جو اس سے پہلے شائع نہيں ہوئی تھيں اور جن سے چرچل کی اُس وقت پيش کی جانے والی يہ دليل غلط ثابت ہوتی ہے کہ جنگ کی صورتحال ايسی تھی کہ چاول ہندوسان بھيجنے کے لئے جہاز موجود نہيں تھے۔ ان کاغذات سے يہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چرچل نے ہندوستان سے انگريز افسران کی، چاول روانہ کرنے کی درخواستوں ميں مسلسل شدت پيدا ہونے کے باوجود اُنہيں بار بار نا منظور کر ديا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والے برطانوی کابينہ کے اجلاسوں کے تجزيوں، فراموش کردہ وزارتی ريکارڈ اور ذاتی ريکارڈ يہ ظاہر کرتے ہيں کہ ان دنوں آسٹريليا سے روانہ ہونے والے اناج سے لدے ہوئے جہاز بحيرہء روم کی سمت جاتے ہوئے ہندوستان کے قريب سے گذررہے تھے۔ بحيرہء روم کے علاقے ميں اناج کے گودام بھرے ہوئے تھے۔ اس کتاب پر سات سال تک کام کرنے والی مصنفہ مکرجی نے، جو ايک جرمن سے شادی شدہ اور جرمنی ہی ميں مقيم ہيں، ٹيليفون پر اے ايف پی خبر ايجنسی کو بتايا کہ چرچل صورتحال سے پوری طرح باخبر تھے۔ حالانکہ بنگال کو مدد روانہ کرنے کا مسئلہ بار بار اٹھايا جارہا تھا ليکن وہ اور اُن کے قريبی ساتھی اس کی راہ ميں مسلسل رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔مکرجی نے کہا: "امريکہ اور آسٹريليا نے مدد بھيجنے کی پيشکش کی تھی ليکن جنگی کابينہ نے کہا کہ وہ اس کے لئے جہاز مہيا کرنے پر تيار نہيں اورجب امريکہ نے خود اپنے بحری جہازوں کے ذريع اناج بھيجنے کی پيشکش کی تو برطانيہ نے اس کا کوئی جواب ہی نہيں ديا۔"

Franklin D. Roosevelt und Winston Churchill
چرچل اور امريکی صدر روزويلٹ، اگست1941تصویر: AP

دنيا بھر کو غلام بنانے کا خواب ديکھنے والے نازی جرمنی کے خلاف جنگ کے ليڈر کی حيثيت سے چرچل کا تاريخ ميں ايک اونچا مقام ہے ليکن ہندوستانيوں کے بارے ميں اُن کا رويہ قابل ستائش نہيں ہے۔ مکرجی نے کہا کہ چرچل نے ہندوستان کے لئے مقرر سيکريٹری مملکت ليو ايمری سے کہا تھا کہ وہ ہندوستانيوں سے نفرت کرتے ہيں۔ غالباً اس کی وجہ يہ بھی تھی کہ چرچل يہ ديکھ رہے تھے کہ امريکہ ہندوستان پر برطانوی راج کو برقرار نہيں رہنے دے گا جسے چرچل تاج برطانيہ کا انمول اور لازمی ہيرہ سمجھتے تھے۔

مکرجی کی کتاب کو ايک معرکہ آرا تصنيف سمجھا جاتا ہے جس نے چرچل کی زندگی پر لکھی گئی سينکڑوں کتابوں کے باوجود نئے انکشافات کئے ہيں۔ مشہور برطانوی مصنف ميکس ہيسٹنگز نے مکرجی کی کتاب کو " اہم اور برطانوی قارئين کے لئے دکھ کا باعث" قرار ديا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: کشور مُصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں