1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاول کی بلاسٹ نامی بیماری سے بچاؤ، جین کی دریافت

22 ستمبر 2009

چاول کی فصل کو یوں تو کئی بیماریاں لگتی ہیں تاہم ان میں سے زیادہ خطرناک بلاسٹ نامی بیماری سمجھی جاتی ہے، جس سے بڑی مقدار میں فصل ضائع ہوجاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/JmHX
تصویر: AP

ماہرین خوراک کا کہنا ہے کہ چاول دنیا بھر میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی خوراک ہے۔ چاول دنیا کے تقریباﹰ ہر خطے میں کاشت کیا جاتا ہے۔ اس فصل کو لگنے والی بیماریوں میں سے ایک بلاسٹ فنگس کی وجہ سے ہر سال چاول کی فصل کی اتنی بڑی مقدار تلف ہوجاتی ہے، جو ساٹھ لاکھ افراد کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیےکافی ہوسکتی ہے۔ چاول کی کچھ اقسام ایسی ہیں جو اس پھپھوندی سے بچاؤ کی قدرتی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ لیکن یہ اقسام کم پیداوار دینے والی ہیں۔

BdT Reisfeld in Kambodia
تصویر: AP

جاپانی سائنسدانوں نےایک ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جس کے تحت نہ صرف چاول میں لگنےوالی بلاسٹ نامی فنگس یا پھپھوندی کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی قسم تیار کی جا سکے گی بلکہ یہ زیادہ پیداوار دینے والی اقسام میں بھی شمار ہوگی۔

حال ہی میں "سائنس" میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جاپان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایگرو بائیولوجیکل سائنس کی ایک ٹیم نے ایک ایسی قسم کے چاول تیار کیے ہیں جو نا صرف بلاسٹ فنگس کے خلاف قوت مدافعت رکھتے ہیں بلکہ زیادہ پیداوار بھی دیتے ہیں۔

ڈاکٹر شوایچی فوکوکا کی سربراہی میں جاپانی زرعی سائنسدانوں کی ٹیم نے جب بلاسٹ بیماری سے قدرتی قوت مدافعت رکھنےوالے جاپونیکا نام کے چاول کے جین کا موازنہ انفیکشن سے متاثر ہونے والی اقسام کے جینز سے کیا تو انہوں نے پی آئی ٹوئنٹی ون نامی جین کو بلاسٹ فنگس کی وجہ بننے والے جین سے علیحدہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ محققین کا خیال تھا کہ یہ پی آئی ٹوئنٹی ون نامی جین دراصل ذائقے کو بہتر بناتا ہے۔ چنانچہ اس مفروضے کو چیک کرنے کے لئے محققین نے اس جین کو بلاسٹ فنگس کے خلاف مزاحمت رکھنے والی قسم میں شامل کیا، اور نتیجہ ان کی توقع کے عین مطابق نکلا کیونکہ محققین اس طرح سے ایک بلاسٹ فنگس کے خلاف قوت مزاحمت رکھنے والی مگر بہتر ذائقے کی حامل قسم تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

فوکوکا کا کہنا ہے کہ زیادہ قوت مدافعت والےجین کے یہ پودے بھی انفیکشن یا بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن اس بیماری سے ان کو کچھ زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔ اس لئے اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ان پودوں کو پھپھوندی سے بچانے کے لیے دی جانے والی دوا کی مقدار میں پچاس فیصد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ فکوکا نے اس دریافت کوان پہاڑی علاقوں کے لیے زیادہ کارآمد قرار دیا ہے جہاں چاول کی فصل کوبلاسٹ نامی بیماری سے متاثر ہونے کا خطرناک حد تک اندیشہ رہتا ہے۔


فکوکا ،پی آئی ٹوئنٹی ون کے مزاحمت کار وضع کو کم پیداوار والی کاشت سے منسلک جین سے علیحدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں ہوتا یہ چلا آیا تھا کہ سائنسدان جب پی آئی ٹوئنٹی ون مزاحمت کار جین کو چاول کی کسی دوسری قسم میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے تھے تو اس سے چاول کا معیار متاثر ہو جاتا تھا۔ تاہم فکوکا کے مطابق اس نیی تحقیق سے پی آئی ٹوئنٹی ون کے بالکل صحیح مقام کی نشاندہی نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ پی آئی ٹوئنٹی ون جین کسی نئی قسم میں بنا نقصان پہنچائے منتقل ہو سکتی ہے۔

برطانیہ کی ایکسڑر یونیورسٹی میں مالیکیولر جینیٹکس کے پروفیسر نک ٹلبوٹ کے مطابق ماضی میں بھی چاول کی مختلف اقسام کی جین میں خاص تبدیلیاں لانے کی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ مگر یہ اقسام صرف دو یا تین سال تک ہی بلاسٹ فنگس سے بچی رہیں۔ انہوں نے جاپانی محققین کی اس دریافت کو بہت اہم اور بڑا قرار دیا ہے کیونکہ جین میں تبدیلی لانے کےاس عمل کو استعمال کرتے ہوئے کہیں بھی چاول کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس دریافت کو چاول کے جین میں تبدیلی لانے والے دیگر طریقوں کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے تو سائنسدان بلاسٹ فنگس کو مکمل طور پرچاول کی فصل سے خارج کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : ندیم گِل