1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چانسلر میرکل کا ’امتحان سے پہلے امتحان‘

اشتیاق محسود، ڈیرہ اسماعیل خان
3 مئی 2017

جرمن چانسلر میرکل کو اتوار سات مئی کے روز ایک ایسے امتحان کا سامنا ہو گا، جس میں وہ ’شُلس ایفیکٹ‘ کی ناکامی اور ’میرکل ریکوری‘ کے تسلسل کی امید کر رہی ہیں۔ یہ عوامی امتحان شمالی جرمن صوبے شلیسوِگ ہولشٹائن میں ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2cHst
Kieler Woche 2016 Kreuzfahrtschiff Besucher
شمالی جرمنی کے اس ساحلی صوبے میں ڈینش اور فریزیئن نسل کی اقلیتی آبادی بھی کافی زیادہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz

جرمنی میں اس سال موسم خزاں میں قومی پارلیمانی الیکشن ہوں گے۔ ان وفاقی انتخابات سے پہلے متعدد جرمن صوبوں میں بھی یا تو علاقائی پارلیمانی الیکشن ہو چکے ہیں یا ابھی ہونا ہیں۔ اسی لیے سال رواں کو جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی ہے، ’سُپر الیکشن ایئر‘ بھی کہا جا رہا ہے۔

جرمنی میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے گزشتہ وفاقی انتخابات کے دنوں کے مقابلے میں چانسلر انگیلا میرکل کی مقبولیت اب قدرے کم ہو چکی ہے۔ موجودہ مخلوط وفاقی حکومت میں شامل جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اس سال ہونے والے قومی الیکشن میں چانسلر کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار مارٹن شُلس کو بنایا ہے، جو یورپی پارلیمان کے سابق اسپیکر ہیں۔

Angela Merkel Porträt entschlossen Asylpolitik Asyl Flüchtlinge Krise Europa NRW
چوتھی مرتبہ وفاقی جرمن چانسلر بننے کی خواہش مند قدامت پسند انگیلا میرکلتصویر: picture-alliance/dpa/Malte Ossowski/SVEN SIMON

شُلس کے چانسلرشپ کا امیدوار بنائے جانے سے پہلے ان کی جماعت ایس پی ڈی کی عوامی مقبولیت، جو اس وقت کافی کم ہو چکی تھی، پھر سے کافی زیادہ ہو گئی ہے۔ عوامی ہمدردیوں کی اس تبدیلی کو جرمن سیاست میں ’شُلس ایفیکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

پھر اسی سال جرمنی کے جنوب مغربی صوبے زارلینڈ میں جو ریاستی الیکشن ہوئے، اس میں ووٹروں نے ایک بار پھر کافی بڑی تعداد میں میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی حمایت کی تو ثابت ہو گیا کہ ایس پی ڈی کو ’شُلس ایفیکٹ‘ کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

اب اتوار سات مئی کے روز، جب فرانس میں صدارتی الیکشن کے دوسرے اور حتمی مرحلے کا انعقاد بھی ہو گا، جرمنی کے انتہائی شمالی صوبے شلیسوِگ ہولشٹائن میں ریاستی پارلیمانی الیکشن کرائے جا رہے ہیں۔ ان صوبائی انتخابات کے حوالے سے اب میرکل یہ امید کر رہی ہیں کہ جرمنی کے اس ساحلی صوبے میں ایک بار پھر ’شُلس ایفیکٹ‘ بس برائے نام ہی رہے گا اور میرکل کی اپنی پارٹی سی ڈی یو دوبارہ عوامی اعتماد حاصل کرنے کا عمل جاری رکھے گی۔

زارلینڈ کے صوبائی انتخابات، میرکل کی جماعت کی پوزیشن مزید مضبوط

جرمنی: سال کے پہلے ریاستی انتخابات، میرکل کی جماعت فاتح

میرکل کی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین کو توقع ہے کہ شلیسوِگ ہولشٹائن کے انتخابی نتائج سے یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ 24 ستمبر کو جرمن عوام وفاقی سطح پر کس جماعت کی اکثریتی حمایت کریں گے اور اگر فتح قدامت پسند سی ڈی یو کو ملی تو چانسلر میرکل کے لیے مسلسل چوتھی مرتبہ جرمن سربراہ حکومت بننے کی راہ کا ہموار ہوتے جانا ثابت ہو جائے گا۔

Martin Schulz Präsident EU Parlament Porträt
چانسلرشپ کے لیے میرکل کے سوشل ڈیموکریٹ حریف مارٹن شُلستصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq

اسی لیے شلیسوِگ ہولشٹائن میں قریب 2.3 ملین بالغ شہریوں کو چند روز بعد کِیل میں صوبائی پارلیمان کے جن نئے ارکان کا چناؤ کرنا ہے، اسے ستمبر میں چانسلر میرکل کے ’بڑے سیاسی امتحان سے پہلے ایک اور عوامی امتحان’ کا نام دیا جا رہا ہے۔

راے عامہ کے اب تک کے جائزوں کے مطابق اس شمالی جرمن صوبے میں میرکل کی جماعت سی ڈی یو سب سے آگے ہے، جسے 33 فیصد ووٹروں کی تائید حاصل ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی آتی ہے، جسے 29 فیصد عوامی حمایت حاصل ہے۔

شلیسوِگ ہولشٹائن میں اس وقت ایس پی ڈی ہی کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت اقتدار میں ہے، جس میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور ایک علاقائی سیاسی جماعت ایس ایس ڈبلیو بھی شامل ہیں۔ ایس ایس ڈبلیو ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے، جو شمالی جرمنی میں ڈینش اور فریزیئن نسل کے اقلیتی باشندوں کے نمائندہ جماعت ہے۔

جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کرنے والی پارٹی ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کو اس صوبے میں نو فیصد رائے دہندگان کی تائید حاصل ہے۔