1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چار لاکھ سے زائد محصور شامیوں کو امداد کی فراہمی ناممکن

امتیاز احمد28 اگست 2015

اقوام متحدہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چار لاکھ بائیس ہزار شامی باشندے جنگ زدہ علاقوں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور انسانی بنیادوں پر ان تک کسی قسم کی بھی امداد پہنچانا ناممکن ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GNLy
Symbolbild Flüchtlinge Balkan
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff

اقوام متحدہ نے ایک مرتبہ پھر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ خانہ جنگی کے شکار ملک شام کی صورتحال مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ اسٹیفن او برائن نے کہا کہ جنگ زدہ علاقوں میں محصور افراد کی حالت پہلے سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جنگ زدہ علاقوں میں تقریباﹰ چھیالیس لاکھ افراد موجود ہیں اور ان تک بھی انسانی امداد پہنچانا مشکل ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ مہینوں کے دوران ان میں سے بھی صرف بارہ فیصد تک امداد پہنچائی گئی لیکن چار لاکھ سے زائد شامی باشندے ایسے ہیں کہ جو محصور ہو چکے ہیں اور کسی بھی طریقے سے ان تک امداد پہنچانا فی الحال ناممکن ہے۔

تقریباﹰ دو لاکھ پچاس ہزار ہلاکتیں

اسٹیفن او برائن کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہنا تھا کہ شام کے تنازعے کے آغاز سے اب تک دو لاکھ پچاس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دس لاکھ شامی زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کے ملک کے اندر ہی بے گھر ہونے والے شامی باشندوں کی تعداد تقریباﹰ چھہتر لاکھ بنتی ہے جبکہ ان میں سے دس لاکھ افراد رواں برس کے دوران بے گھر ہوئے ہیں۔ ملک سے فرار ہونے والے شامی باشندوں کی تعداد چالیس لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

Syrien Bürgerkrieg in Damaskus
تصویر: picture alliance/AA/M. Khair

اسٹیفن او برائن کا سلامتی کونسل سے کہنا تھا، ’’میں اس وجہ سے غصے میں ہوں کہ ہم بین الاقوامی کمیونٹی کے طور پر شامی باشندوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہم ان کے لیے ایک ایسے وقت میں مزید کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں، جب انہیں ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ ان کی طرف سے حکومتی فورسز اور ان کے خلاف لڑنے والی طاقتوں کی طرف سے اندھا دھند حملوں کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ ان کے مطابق مخالفین ایک دوسرے کو ہر حال میں شکست دینے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ اس کی قیمت بچے، خواتین اور عام شہری ادا کر رہے ہیں۔

دوسری جانب اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل میں ایسی سفارشات پیش کی ہیں، جن کا مقصد ایک ایسے طریقہء کار کی تشکیل ہے، جس سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والوں کو منظر عام پر لایا جا سکے۔