پیپلز پارٹی کو زیادہ نقصان بدعنوانی کے الزامات نے پہنچایا
30 نومبر 2017پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کو پچاس برس مکمل ہوگئے۔ 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور اسی روز ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چئیرمین منتخب کیا گیا۔ اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت، طاقت کا سرچشمہ عوام اور شہادت ہماری منزل کے پانچ نکاتی منشور کے ساتھ ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے خلاف بنائی گئی پیپلز پارٹی صرف تین سال میں ملک کی مقبول ترین جماعت اور ذوالفقار علی بھٹو بانی پاکستان محمد علی جناح کے بعد ملک کے سب سے مقبول ترین لیڈر بن گئے۔ جنرل یحٰیی خان کے استعفٰی کے بعد بھٹو کو دنیا کا واحد سولین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا تاہم وہ جلد ہی پاکستان کے صدر بنے اور پھر وزارت اعظمیٰ کا منصب سنبھال لیا۔
مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی پچاس برس کے دوران چوتھی مرتبہ تشکیل نو کے عمل سے گزر رہی ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کا دور پیپلز پارٹی کا عروج تھا۔ اس وقت ڈاکٹر مبشر حسن، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مرتضٰی جتوئی، غلام مصطفٰی کھر اور معراج محمد خان ان کے ساتھ تھے۔ مگر بھٹو کو ایک انتہائی مضبوط حزب اختلاف کا سامنا رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان کو ایک متفقہ آئین دینا بلاشبہ بھٹو کا کارنامہ تھا۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا، سقوط ڈھاکہ کے بعد تقریباﹰ نوے ہزار سے زائد جنگی قیدیوں کی واپسی کے لئے شملہ معاہدہ اور اسلامی سربراہی کانفرنس کا قیام بھی بھٹو کے اقدام ہیں۔ ان سب کے باجود بھٹو لینڈ ریفارمز کے انتخابی وعدے کو وفا نہ کر سکے اور نجی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا ان کی غلطی تصور کیا جاتا ہے۔
1974ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے مہم کا آغاز کردیا۔ بھٹو اس بار بھی حزب اختلاف کو تقریباﹰ منا چکے تھے لیکن جنرل ضیاالحق نے بھٹو کوگرفتار کر کے ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا۔ بھٹو کے خلاف محمد احمد خان قصوری کے قتل کی سازش کے الزام میں مقدمہ چلا کر انہیں پھانسی دے دی گئی، جسے آج بھی ’عدالتی قتل‘ کہا جاتا ہے۔
بھٹو کے بعد پہلے ان کی اہلیہ نصرت بھٹو اور پھر بیٹی بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی کمان سنبھالی۔ بے نظیر کے دور میں ان کے والد کے تمام ساتھی ایک ایک کر کے پارٹی سے دور ہوتے چلے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تشکیل نو کر کے مخدوم امین فہیم، فاروق لغاری، جہانگیر بدر، پرویز علی شاہ، ناہید خان اور صفدرعباسی کو قریبی رفقاء بنایا۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو نے مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر وزارت اعظمٰی کا منصب سنبھالا مگر ایک مدبر سیاست کے طور پر سامنے آنے والی بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کرپشن کے الزامات کی نذر ہوگئی، جس کا بنیادی کردار ان کے شوہر آصف علی زرداری کو قرار دیا جاتا ہے۔ پانچ سال بعد بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ اقتدار میں آئیں مگر اس مرتبہ ان کے اپنے بھائی مرتضٰی بھٹو کو ان کے گھر کے باہر مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا اور پھر پیپلز پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے صدر پاکستان فاروق لغاری نے ہی ان کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
بے نظیر بھٹو نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں بیرون ملک چلیں گئیں اور پھر اس وقت پاکستان واپس آئیں، جب پاکستان میں جنرل مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا تھا۔ وطن واپسی سے قبل بے نظیر نے نواز شریف کے ساتھ لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور اگلے ہی دن دبئی میں جنرل مشرف سے ملاقات بھی کی۔
بےنظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو پاکستان واپس پہنچیں اور اسی روز سے ان پر حملوں کا آغاز بھی ہوا۔ 17 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی کمان سنبھالی اور انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا گیا اور آصف زرداری خود صدر مملکت بن گئے۔ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اٹھارویں ترمیم اور قومی مالیاتی ایواڈ جیسے اہم کام سر انجام دیے مگر اس مرتبہ بھی حکومتی عہدے سنبھالنے والے پارٹی عہدیداروں پر کرپشن کے الزامات عائد ہوتے رہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حج اسکینڈل، توانائی کے بحران اور اس سے نمٹنے کے لیے ناقص حکمت عملی نے پیپلز پارٹی کو 2013ء کے انتخابات میں صرف سندھ تک محدود کردیا۔
تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی تشکیل نو کا چوتھا دور شروع ہوا ہے لیکن بلاول بھٹو ابھی تک اپنے نانا اور اپنی والدہ کی طرح موثر اور مقبول سیاست دان ثابت نہیں ہو سکے ہیں اور نہ ہی ان کو اپنے اجداد جیسے جاں نثار ساتھیوں کی سنگت نصیب ہوئی ہے، جو انہیں سندھ کے علاوہ باقی ماندہ پاکستان میں پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے مفید مشورے دے سکیں۔