پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں عالمی رہنما بھی شامل
1 مارچ 2009شریف برادران کی نا اہلی کے عدالتی فیصلے کے بعد سے بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی پر قابو پانے کے لئے کھلی اور درپردہ مفاہمت کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان میں پیپلز پارٹی کے بعض رہنمائوں کے علاوہ برطانیہ، امریکہ اوریورپی ممالک کے سفارت کار بھی پیش پیش ہیں۔
اس ضمن میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیویڈ ملی بینڈ نے ہفتے کے روز صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں پاکستان میں جمہوری نظام کی مضبوطی کے لئے ہر طرح کے تعاون کی پیش کش کی جب کہ دوسری طرف برطانوی ہائی کمشنر ڈیوڈ برینکلے نے بھی رائیونڈ میں میاں شہباز شریف سے جبکہ قائم مقام امریکی سفیر نے اسلام آباد میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان سے ملاقاتیں کیں۔
ان رابطوں کے دوران امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے سفارت کاروں نے اس امید کا اظہار کیا کہ موجودہ صورتحال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کاوشوں کو نقصان پہنچانے کا سبب نہیں بنے گی۔
ادھر پیپلز پارٹی کے رہنما اوربلوچستان کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کے خاتمے کے لئے صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے بعد میاں برادران سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جلد ہی ان سے ملاقات بھی کریں گے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر نبیل گبول نے مفاہمت کی ان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ’’ مفاہمت کے لئے ہمارے اور بھی دوست بیچ میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں ہمارے غیر ملکی دوست بھی ہیں۔ انہوں نے ہم سے اور میاں برادران سے بھی مفاہمت کے لئے رابطے کئے ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ مفاہمت کا کوئی راستہ نکل آئے کیونکہ جو سیاست شریف برادران اور مسلم لیگ والے کر رہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ اس کا نقصان جمہوریت کو پہنچ سکتا ہے‘
ادھر سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ نواز کے برعکس حکمران پیپلز پارٹی کو زیادہ مفاہمانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اسے کچھ ہنگامی اقدامات بھی کرنا ہوںگے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ نگار شفقت محمود کہتے ہیں:’’ یہ ناممکن نہیں ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے درمیان پھر سے مفاہمت ہو جائے ۔ میرے خیال میں اس کے لئے اس وقت سپریم کورٹ کا جو فیصلہ ہے اس کو واپس لینے کا کوئی طریقہ ڈھونڈنا پڑے گا ورنہ بات چیت بغیر کسی مقصد کے ہی ختم ہو گی۔‘‘
وکلاء کی طرف سے عدلیہ بحالی کےلئے 12مارچ سے لانگ مارچ کے آغاز کے اعلان اور شریف برادران کی طرف سے مرکزی حکومت خصوصاً صدر آصف علی زرداری کے خلاف اپنایا ہوا انتہائی سخت رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ مارچ کا مہینہ پاکستانی سیاست اور ملک کے مستقبل کے تعین میں انتہائی اہم ثابت ہوگا