پیرس میں حملوں کے بعد فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ
14 نومبر 2015خبر رساں اداروں نے بتایا ہے کہ پیرس میں اور اس کے گردو نواح میں ہونے والے مختلف حملوں کے نتیجے میں کم از کم چالیس افراد ہلاک جبکہ ساٹھ زخمی ہو گئے ہیں۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے ان سلسلہ وار حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے ایک نشریاتی پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔
اولانڈ کے بقول ملکی سرحدوں کو اس لیے بند کیا جا رہا ہے تاکہ حملہ آور ملک سے فرار نہ ہو سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوں شر پسند عناصر کو ملک میں داخل ہونے سے بھی روکا جا سکے گا۔ اولانڈ کے مطابق پیرس حملوں کے بعد کابینہ کی میٹنگ بلا لی گئی ہے، جس میں آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ پیرس میں سات مختلف علاقوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ پیرس بھر میں سکیورٹی انتہائی الرٹ کر دی گئی ہے اور حملہ آوروں کو تلاش کرنے کا عمل جاری ہے۔ پیرس کنسرٹ ہال کو بھی محاصرے میں لے لیا گیا، جہاں کچھ حملہ آوروں نے متعدد افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ہال میں داخل ہو کر یرغمالیوں کو رہا کرا لیا ہے۔ پولیس کے مطابق اس کارروائی میں دو حملہ آور ہلاک ہوئے ہیں۔
عالمی رہنماؤں نے پیرس میں ہوئے ان حملوں کی سخت مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے ان حملوں کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پیرس کنسرٹ ہال مبینہ طور پر یرغمالی بنائے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق پیرس میں اس کارروائی پر انہیں ’شدید دھچکا‘ لگا ہے۔ بیان کے مطابق میرکل بظاہر ان دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے دکھ میں شریک ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل وقت میں واشنگٹن پیرس حکومت کے ساتھ ہے۔ اوباما نے کہا، ’’یہ حملہ صرف پیرس یا فرانس پر نہیں کیا گیا بلکہ یہ انسانیت پر ایک حملہ ہے۔ یہ ان عالمی اقدار پر حملہ ہے، جو ہم سب کے لیے مشترک ہیں۔‘‘