1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیراگوئے کا سیاسی انتشار، مظاہرین نے پارلیمنٹ کو آگ لگا دی

عابد حسین
1 اپریل 2017

جنوبی امریکی ملک پیراگوئے کے موجودہ صدر ایک اور مدت کے لیے صدر بننے کے خواہشمند ہیں۔ عوام اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ رائے شماری کی پرواہ کیے بغیر مشتعل ہجوم نے پارلیمنٹ کو آگ لگا دی۔

https://p.dw.com/p/2aUJO
Paraguay Protestierende verbrennen das Parlament
تصویر: Reuters/J. Adorno

سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کے بعد پیراگوئے میں مظاہرین نے مشتعل ہو کر ملکی پارلیمان کی عمارت کو آگ لگا دی۔ اس سے قبل سینیٹ نے اُس آئینی ترمیم کے بارے میں خفیہ ووٹنگ کی جس کے تحت صدر ہوراشیو کارٹیز دوبارہ انتخابات لڑنے کے اہل ہو سکیں گے۔

فائر بریگیڈ کے عملے نے رات گئے میں پارلیمنٹ کی عمارت میں لگی ہوئی آگ پر قابو پا لیا ہے۔ پارلیمنٹ میں گھسنے والے مظاہرین کو روکنے کے لیے متعین پولیس نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کیا لیکن وہ ان رکاوٹوں سے گزرتے چلے گئے۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ کے باہر ٹائر بھی جلائے اور وہاں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو بھی توڑ ڈالا۔

پیراگوئے کے دارالحکومت آسُنسیئون سے ملنے والی میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ پر بولے گئے دھاوے کے بعد وزیر داخلہ ٹاڈیو روخاس اور کئی پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ مظاہروں میں شریک ایک رکن پارلیمنٹ کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ انہیں پولیس کی جانب سے فائر کی گئی کئی ربڑ کی گولیاں لگی ہیں اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس مظاہرے میں مجموعی طور پر زخمی ہونے والے افراد کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔

Paraguay Abgeordneter Roberto Acevedo während der Prostesten in Asuncion
ارالحکومت آسُنسیئون اور دوسرے شہروں میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہےتصویر: Reuters/J. Adorno

 دوسری جانب دارالحکومت آسُنسیئون اور دوسرے شہروں میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان مظاہروں کے دوران پیراگوئے کے صدر نے ٹویٹر پر کہا کہ عوام تحمل کا مظاہرہ کریں اور اُن کی حکومت تشدد کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ کارٹس کے مطابق چند تشدد کے طلب گار افراد کو ملکی امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

 اپوزیشن کی سیاسی جماعت پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر نے میڈیا کو بتایا کہ وہ صدر کی منشا کے خلاف اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ صدر دستور کے منافی اقدامات کر کے ایک طرح کی ’بغاوت‘ کے مرتکب ہوئے ہیں اور عوامی تائید و حمایت سے اس ’صدارتی بغاوت‘ کا راستہ روکا جائے گا۔

پیراگوئے کا دستور صدر کو دوبارہ انتخابی عمل کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ دستور سن 1992 میں منظور کیا گیا تھا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ پیراگوئے میں ایک خونی تحریک کے بعد سن 1989 میں آمریت کا خاتمہ ہوا تھا۔