1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پہلی خلیجی جنگ کے خاتمے کے بیس سال

P. Phillip / ZR22 اگست 2008

1988 میں پہلی خلیجی جنگ ایران اور عراق کے مابین جنگ بندی کے ایک سمجھوتے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوئی تھی لیکن صیح معنوں میں ان دونوں ملکوں کے مابین حقیقی امن آج تک قائم نہیں ہو سکا ہے۔

https://p.dw.com/p/F2wq
تصویر: AP

آج سے تقریبا بیس یعنی 1988 میں اگست کے مہینے میں ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی اور اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین نے ایک ایسے جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے نتیجے میں پہلی خلیجی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ لیکن صیح معنوں میں ان دونوں ملکوں کے مابین حقیقی امن آج تک قائم نہیں ہو سکا ہے۔ آج سے دو عشرے قبل ایران اور عراق کے مابین اس جنگ بندی معاہدے کے طے پانے کے وقت ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی نے کہا تھا کہ ان کے لئے اس معاہدے پر دستخط کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی خود اپنے ہاتھوں زہر کا پیالہ پینے کا فیصلہ کرلے۔ آج اس جنگ بندی کے بیس برس بعد بھی،تہران اور بغداد کے باہمی رابطوں کو حقیقی امن کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

Krieg Iran Irak Kriegsgefangene
تصویر: picture-alliance / dpa

1980 میں پہلی خلیجی جنگ کہلانے والے اس طویل تنازعے کے آغاز کے وقت کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں اس جنگ کے نتائج کیا ہوں گے۔ 22 ستمبر 1980 کے دن صدام حسین نے ایران پر حملے کا حکم جاری کیا، عراقی فوج نے کئی ایرانی شہروں پر بمباری کی ، اور کچھ شہروں پر تو وہ قابض بھی ہو گئی۔ بغداد حکومت کا خیال تھا کہ انقلاب ایران کے بعد ایران کمزور ہو چکا ہے اور عراق با آسانی ایران پر قابض ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ تب اس جنگ میں عراق کو امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔

دوسری جانب ایرانی رہنما بھی جانتے تھے کہ اس جنگ سے ایرانی قوم کی توجہ داخلی اور سیاسی معاملات سے ہٹائی جا سکتی تھی اور یوں پوری قوم کو بیرونی خطرات اور دشمنوں کے خلاف متحد کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ایران کا سب سے اہم ہتھیار زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل اس کی وہ فوج تھی جس کے ارکان نہ صرف آیت اللہ خمینی کی قیادت پر اندھا دھند یقین رکھتے تھے بلکہ اپنے ملک اور اپنے عقیدے کے لئے جان بھی قربان کردینے پرتیار تھے۔ اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد ایرانی نوجوان ہلاک ہوئے جبکہ ہلاک ہونے والے عراقی فوجیوں کی تعداد چار لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔

ایران میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس کا کوئی نہ کوئی فرد اس جنگ میں ہلاک نہ ہوا ہو۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تہران میں واقع، 400 ہیکٹررقبے پر پھیلا ہوا "بہشت زہرا" نامی وہ قبرستان ہے جہا ں اس جنگ میں ہلاک ہونے والے بے شمار ایرانیوں کی قبریں موجود ہیں۔

20 Jahre Waffenstillstand Irak und Iran im Dialog
تصویر: picture-alliance / dpa

1988 کی جنگ بندی کے دو عشرے بعد دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں میں بد اعتمادی اور رنجشیں آج بھی پائی جاتی ہیں۔ جس طرح ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد عراق نے معزول ایرانی بادشاہ رضاپہلوی کو کچھ عرصے کے لئے اپنے ہاں پناہ دی تھی، اسی طرح آج کا ایران بھی بغداد حکومت کے مخالفین، اور خاص کر شیعہ اور کرد شخصیات کو اپنے ہاں پناہ دے رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ گذشتہ عراقی جنگ میں جب امریکہ نے صدام حکومت کے خلاف فوجی اقدامات شروع کئے تو تب بھی ایرانی قیادت نے اس وجہ سے غیر اعلان شدہ اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں شیعہ برادری کو یقینی طور پر اقتدار تک رسائی کا راستہ میسر آجائے گا۔