1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پکتیکا میں حکومتی خلاء اور طالبان کی سرگرمیاں

8 مارچ 2011

افغانستان میں کابل حکومت کئی دور دراز علاقوں میں تقریباﹰ غیر فعال خیال کی جاتی ہے۔ ان میں ایک پکتیکا کا صوبہ بھی ہے۔ اس باعث طالبان عسکریت پسند اپنی غیرقانونی سرگرمیوں کو وسعت دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/10UpK
تصویر: AP

پکتیکا سمیت کئی دوسرے افغان سرحدی صوبوں میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے حوالے سے افغان اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ اس صورت حال سے طالبان انتہا پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ صورت حال مشرقی علاقوں میں پیدا ہو چکی ہے اور مستقبل میں نیٹو کی جانب سے تعینات فوج کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ مشرقی حصے کا صوبہ پکتیکا خاص طور پر اب انتہا پسندوں کے لیے فنڈز کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محفوظ گڑھ بھی بنتا جا رہا ہے۔

مضبوط اور مناسب حکومتی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے طالبان کی جانب سے ’شیڈو اتھارٹی‘ کا قیام سامنے آنے لگا ہے۔ طالبان نے خشک میوہ جات کے علاوہ کاروبار اور تنخواہوں پر اپنے ٹیکسوں کا نفاذ کر دیا ہے۔ پکتیکا میں تو طالبان نے ایک ایسے گورنر کو بھی تعینات کر دیا ہے، جو پاکستان کے ساتھ سرحدی قبائلی پٹی میں رہائش پذیر ہے۔ عوامی اختلافات کو حل کرنے کے لیے جج بھی تعینات کردیے گئے ہیں۔ دوسری جانب پکتیکا کی چار لاکھ کی آبادی کے لیے حکومت کی جانب سے تین جج مقرر ہیں اور ان میں سے بھی صرف ایک ہی جج اس علاقے میں رہتا ہے۔ طالبان کے حکم کے تحت تقریباً تمام اسکول بند کروائے جا چکے ہیں۔ انتہاپسندوں نے موبائل ٹیلی فون کے ٹاور کو تباہ کر کے حکومت سے رابطے کے ایک اہم ذریعے کو ختم کر دیا ہے۔

USA erwarten Frühjahrsoffensive der Taliban
پکتیکا میں تعینات امریکی فوجی افسرانتصویر: AP

مغربی ملکوں کے ذرائع کے مطابق کابل کی حکومتی عملداری جن علاقوں میں دکھائی نہیں دیتی، وہاں حکومتی عہدیداران تعینات تو ضرور ہیں اور ان کو باقاعدہ ہر ماہ تنخواہیں بھی دی جا رہی ہیں لیکن موقع اور مقام پر ایسے افراد کی موجودگی کے شواہد نہیں ملتے۔ حکومتی اہلکار شاذ ونادر ہی قصبوں اور دیہات کے دورے کرتے ہیں۔ اب لوگ بھی یہ کہتے پھرتے ہیں کہ کابل حکومت کے گورنر اور دوسرے افسران ان کا قطعاً خیال نہیں کرتے۔ پکتیکا کا نیا گورنر محمد سرور ریت کے تھیلوں کی مدد سے تیار کی گئی ایک حفاظتی برجی کے عقب میں امریکی فوج کے ہمراہ رہتا ہے۔

پکتیکا میں امریکی فوج انسداد دہشت گردی کا عمل ایک پلان کے تحت جاری تو رکھے ہوئے ہے لیکن تمام تر توجہ بڑے شہروں پر ہے اور دیہات تاحال نظرانداز ہیں۔ یہ حکام وسائل کی کمیابی کا رونا بھی روتے ہیں۔ افغانستان متعینہ امریکی اہلکاروں کا خیال ہے کہ پکتیکا کے فعال طالبان اب قندھار اور ہلمند میں مصروف انتہاپسندوں کی بھی معاونت کر رہے ہیں۔ امریکی ٹاسک فورس کے کرنل شین جونز کے مطابق پکتیکا بنیادی طور پر دشمن روٹ پر واقع ہے اور یہ قندھار سمیت دوسرے مقامات پر مصروف طالبان گوریلوں کے لیے رسد کا راستہ بھی ہے۔

مشرقی افغانستان میں اتحادی فوجوں کے کمانڈر میجر جنرل جون ایف کیمپبل کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کے بعض علاقوں میں سویلین حکومت کے ساتھ ’گُڈ گورننس‘ کی کوشش کی جا ئے تو یہ ایک مثالی صورت حال بن سکتی ہے۔ اس امریکی جنرل کے مطابق اسی کوشش سے افغانستان میں طالبان کو مضبوط انداز میں شکست دی جا سکتی ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ وسط اپریل سے پکتیکا جیسے علاقوں میں جنگی کارروائیوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید