’پيرس ميں حملہ کرنے والا پناہ گزين تھا‘
10 جنوری 2016پيرس ميں ايک پوليس اسٹيش پر حملے کے تحقيقات کرتے ہوئے جرمن تفتيش کاروں نے گزشتہ روز ريکلنگ ہاؤزن ميں ايک مہاجر کيمپ پر چھاپا مارا۔ تفتيش کاروں نے اپنے بيان ميں صرف يہی بتايا ہے کہ چھاپے کے دوران کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کے کوئی شواہد نہيں ملے۔ البتہ خبر رساں ادارے اے ايف پی نے تفتيشی عملے کے ايک قريبی ذرائع کے حوالے سے بتايا ہے کہ متعلقہ شخص متعدد مرتبہ پناہ گزين کی حيثيت سے اپنے نام کا اندراج کرا چکا تھا۔
فرانسيسی دارالحکومت ميں گزشتہ ہفتے جمعرات کے دن ايک جعلی خود کش جيکٹ پہنے ہوئے اور گوشت کاٹنے والے بڑے سے چاقو سے ليس ايک شخص نے شہر کے شمالی حصے ميں واقع ايک پوليس اسٹيشن پر دھاوا بول ديا۔ پوليس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسے ہلاک کر ديا۔ يہ واقعہ سات جنوری کو رونما ہوا۔ گزشتہ برس عين اسی تاريخ کو فرانسيسی طنزيہ جريدے شارلی ايبدو کے دفتر پر شدت پسند مسلمانوں نے حملہ کيا تھا، جس ميں بارہ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
جرمن ويب سائٹ اشپيگل آن لائن پر شائع کردہ رپورٹوں کے مطابق حملہ آور ايک مہاجر کيمپ ميں مشرق وسطیٰ ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم داعش کے پرچم کے ساتھ تصوير لينے کے سبب پہلے ہی سے جرمن پوليس کی نظروں ميں تھا تاہم وہ دسمبر ميں اچانک لاپتہ ہو گيا تھا۔ اس شخص نے پناہ گزينوں کے اندراج کے مختلف مراکز ميں اپنی مختلف شہريت لکھوائی تھی، ايک مرتبہ شامی، ايک مرتبہ مراکشی اور ايک مرتبہ تو اس نے خود کو جارجيا کا شہری بتايا تھا۔ اس کے برعکس فرانسيسی تفتيش کاروں نے بتايا کہ مشتبہ شخص کو اس کے اہل خانہ نے تيونس سے تعلق رکھنے والا طارق بلقاسم کے طور پر شناخت کيا ہے۔ پيرس کے وکيل استغاثہ فرانسوا مولنز کے بقول حملہ آور کی تحويل سے ايک جرمن سم کارڈ برآمد ہوا ہے، جس پر متعدد پيغامات موجود تھے، جنہيں جرمنی ہی سے بھيجا گيا تھا۔
دريں اثناء تيونس ميں جس عورت نے يہ دعویٰ کيا ہے کہ وہ حملہ آور کی ماں ہے، اس کے بقول اس کا بيٹا جرمنی ميں تو ضرور تھا ليکن اس کے دہشت گردوں کے ساتھ کوئی روابط نہيں تھے۔
حملہ آور کا مہاجرين يا مہاجر کيمپ سے تعلق ان دنوں يورپ ميں پناہ گزينوں کے حوالے سے پہلے ہی سے جاری بحث کو مزيد پیچیدہ بنا دے گا۔ جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی مہاجر دوست پاليسيوں کے نتيجے ميں گزشتہ برس تقريباً 1.1 ملين مہاجرين جرمنی پہنچے۔ حاليہ پيش رفت کے تناظر ميں ان پر کافی دباؤ ہے کہ وہ تارکين وطن کی حد مقرر کريں۔