1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹین ایران میں

16 اکتوبر 2007

روسی صدر ولادی میرپوٹین نے ایران کے دارالحکومت تہران میں بحیرہء کیسپین کے آس پاس آباد پانچ ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی۔ اِس موقع پر اِس خطے میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر سے استفادے کے موضوع پر پائے جانے والے تنازعات کے حل پر بات کی گئی۔ پوٹین، 1979ء میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اِیران کا دَورہ کرنے والے کسی عالمی طاقت کے پہلے سربراہِ مملکت ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYGP
روسی صدر ولادی میر پوٹین اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد تہران میں
روسی صدر ولادی میر پوٹین اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد تہران میںتصویر: AP

ایک اندازے کےمطابق بحیرہء کیسپین کے نیچے موجود تیل اورگیس کے ذخائریورپ اور امریکہ کے مجموعی ذخائر سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ اِن بے پناہ معدنی ذخائر سے کس کس ملک کو اور کس حد تک استفادے کا حق حاصل ہے، اِسی سوال پر باہمی تنازعات کو حل کرنے کےلئے بحیرہء کیسپین کےساتھ ساتھ واقع ممالک روس، ایران، ترکمانستان، آذربائیجان اور قازقستان کے قائدین تہران میں مل بیٹھے۔ سن 2002ء میں ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں منعقدہ اِن ملکوں کی پہلی کانفرنس کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔ منگل کے روز اپنی نوعیت کی اِس دوسری کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اپیل کی کہ تمام فریق ذمہ داری اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔

احمدی نژاد نے کہا کہ تہران میں متنازعہ معاملات پر مذاکرات جامع انداز میں اور ماہرین کی سطح پر آگے بڑھائے جا رہے ہیں اور کانفرنس کا مجموعی ماحول اشتراکِ عمل اور تعاون کی فضا سے عبارت ہے۔ عموی موضوعات پر بات چیت ہو چکی ہے لیکن اہم قانونی نِکات اور بحیرہء کیسپین کے آس پاس واقع مالک کی خصوصی ذمہ داریوں سے متعلق معاملات پر مذاکرات جاری ہیں۔

اِن ممالک کے قائدین نے طے کیا کہ اِن مسائل پر بات چیت کےلئے آئندہ ہر سال ایسی ایک سربراہ کانفرنس منقعد کی جائے گی جبکہ پانچوں ملکوں کے وزرائے خارجہ سال میں دو بار ملاقات کیا کریں گے۔

روسی صدر ولادی میر پوٹین جرمنی سے منگل کی صبح تہران پہنچے تھے، جہاں اُنہوں نے ایرانی ہم منصب احمدی نژاد کے ساتھ ملاقات کی۔ یہ ملاقات پہلے پیر کی شام کو ہونا تھی لیکن غالباً روسی خفیہ سروِس کے اِس انتباہ کے بعد کہ پوٹین پر قاتلانہ حملے کا خطرہ ہے، روسی صدر ایک روز کی تاخیر سے تہران پہنچے۔

پوٹین ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے ساتھ ساتھ خلیجِ فارس کے بوشہر ایٹمی ری ایکٹر پر بھی ایرانی قیدت کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور امریکہ اور یورپی یونین کے مقابلے میں وہ ایران کی جانب نرم رویہ رکھتے ہیں۔ مغربی دُنیا کے برعکس روس نہیں چاہتا کہ متنازعہ ایٹمی پروگرام کے معاملے میں ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت بنائی جائیں۔

پوٹین نے کہا، ضرورت اِس بات کی ہے کہ تمام متنازعہ معاملات کسی بھی ملک کی حاکمیتِ اعلیٰ کااحترام کرتے ہوئے اور طاقت کے استعمال کے بغیر ہی مکالمت کے راستے حل کئے جائیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بحیرہء کیسپین کا کوئی بھی ملک اپنی سرزمین جنگ کرنے والے کسی دوسرے ملک کو استعمال نہ کرنے دے۔

پوٹین کے مطابق کانفرنس کے شرکاء اِس بات پر متفق تھے کہ بحیرہء کیسپین کے معدنی ذخائر سے استفادے کا حق اِس کے ساتھ ساتھ واقع پانچ ممالک کو ہی حاصل ہے اور اِس کے پانیوں پر صرف اِنہی ملکوں کے پرچم والے بحری جہازوں کو سفر کی اجازت ہونی چاہیے۔