’پناہ گزینوں پر حملے، میرکل خاموشی ختم کریں‘، تبصرہ
24 اگست 2015ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مارسیل فؤرسٹیناؤ کہتے ہیں کہ اگر دیکھا جائے تو ناقدین بالکل صحیح ہیں۔ لیکن انہیں اپنے مطالبات کے حوالے سے احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ ہجرت اور مہاجرین کے بارے میں نہ تو قومی اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر کسی کے پاس کوئی مؤثر منصوبہ ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک ایسا با اعتماد طریقہ کار ہونا چاہیے، جس پر تمام سیاسی حلقوں اور شہری حقوق کی تنظیموں کا اتفاق ہو۔ اس حوالے سے سرکاری سطح پر بیداری کی کال صرف میرکل کی جانب سے ہی آ سکتی ہے کیونکہ وہ پارلیمان کی جانب سے منتخب کردہ چانسلر ہیں۔ خاص طور پر مہاجرین کے موضوع پر میرکل ہی راستے کا تعّین کر سکتی ہیں۔
صرف دقیانوسی بیانات
فؤرسٹیناؤ کے بقول صرف دقیانوسی انداز میں بیان بازی سے کام نہیں چلے گا۔ یہ توحقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے خلاف تشدد کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح کے تشدد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود میرکل کی جانب سے اس بارے میں بہت کم ہی کہا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قدامت پسندوں کے علاوہ دیگر تمام حلقوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی میرکل کے اس رویے کو نامناسب قرار دے رہے ہیں۔
میرکل اور گاؤک کا مشترکہ مؤقف کیوں نہیں؟
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مارسیل فؤرسٹیناؤ اپنے تبصرے میں مزید لکھتے ہیں کہ ہنگامی حالت سے دوچار جرمنی آنے والے افراد کی خاطر میرکل کو سیاسی قیادت کو متحرک کرنا ہو گا۔ ایسے لوگوں کو واضح اشارے دینے کے بہت سے طریقے ہیں۔ سب سے بہتر ہو گا کہ جرمن پارلیمان میں موجود تمام دھڑوں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جائے۔ تاہم پارلیمان میں موسم گرما کی چھٹیوں کی وجہ سے فی الحال ایسا ممکن نہیں اور مہاجرین کا مسئلہ فوری توجہ مانگ رہا ہے۔ اس بناء پر موجودہ صورتحال میں بہتر ہو گا کہ میرکل اور جرمن صدر یوآخم گاؤک کی جانب سے ایک مشترکہ بیان سامنے آئے۔
مارسیل فؤرسٹیناؤ کے مطابق با اثر ملکی سیاستدان اور جرمنی کے اعلٰی نمائندے اپنے اختیارات اور عوام میں اپنی مقبولیت استعمال کرتے ہوئے صریح اشارے مقرر کریں۔ تاہم سب سے بہتر یہ ہو گا کہ پورا ملک مل کر یہ پیغام دے کہ جرمنی اپنے تمام یورپی ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے پر تیار ہے۔