1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ گزين کی زندگی کی جھلکياں : ہالينڈ کا انوکھا عجائب گھر

عاصم سليم14 دسمبر 2015

يورپی رياست ہالينڈ کے شہر دی ہيگ ميں قائم دنيا ميں اپنی نوعيت کا واحد عجائب گھر ’ہيومينيٹی ہاؤس‘ لوگوں کو پناہ گزينوں کی زندگی اور انہيں درپيش مشکلات سے آگاہ کرتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HMyH
تصویر: Fred Ernst/Humanity House

الٹا ہوا وائن گلاس، سوٹ کيس جو آدھا بھرا ہوا ہے اور ريڈيو جس پر فوری طور پر بھاگنے کی ہدايت دی جاری رہی ہے ۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام سے کوئی ہنگامی طور پر مفرور ہوا ہو۔ ہالينڈ ميں ايک عجائب گھر کی جانب سے اسکول کے بچوں کو کافی منفرد انداز ميں پناہ گزينوں کے طرز زندگی کے بارے ميں آگاہ کيا جا رہا ہے۔ يہ ميوزيم ڈچ شہر دی ہيگ ميں بين الاقوامی تنظيم ريڈ کراس کی مقامی شاخ کی جانب سے سن 2010 ميں شروع کيا گيا اور اس کا مقصد جنگ سے پناہ لينے والوں کے ساتھ کام کرنے والے اداروں کی سرگرميوں کے بارے ميں آگہی پھيلانا ہے۔

سولہ سالہ ٹين ايجنز ايمی اور سونا نے جيسے ہی ’ہيومينيٹی ہاؤس‘ نامی اس عجائب گھر کا دورہ شروع کيا، انہيں ’زون بی‘ ميں داخلے کے ليے اجازت نامہ ديا گيا۔ اگرچہ تمام تر طريقہ کار اور ميوزيم ميں موجود چيزيں محض نمائش کے ليے تھيں تاہم سياسی پناہ کے ليے خطرناک راستے اختيار کرنے والوں کے تجربات ديکھ کر ايمی اور سونا حيران زدہ رہ گئيں۔

ميوزيم کی ڈائريکٹر ليزٹ ماٹار بتاتی ہيں، ’’ابتداء ہی سے ميوزيم کا دورہ کسی نامعلوم سفر کی مانند ہے، جس ميں متعدد مقامات پر خطروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ان کے بقول پناہ گزينوں کو کسی محفوظ مقام يا ملک تک پہنچنے کے ليے مشکل فيصلے کرنے پڑتے ہيں۔

گزشتہ برس تيس ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے ’ہيومينيٹی ہاؤس‘ کے سفر کا تجربہ حاصل کيا
گزشتہ برس تيس ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے ’ہيومينيٹی ہاؤس‘ کے سفر کا تجربہ حاصل کياتصویر: Fred Ernst/Humanity House

ابتداء ميں سالانہ بنيادوں پر چودہ ہزار افراد ميوزيم کی سير کيا کرتے تھے تاہم گزشتہ برس تيس ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے ’ہيومينيٹی ہاؤس‘ کے سفر کا تجربہ حاصل کيا۔ يورپ کو ان دنوں دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے حوالے سے اپنی تاريخ کے بدترين بحران کا سامنا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر عوامی دلچسپی اور ميوزيم کا دورہ کرنے والوں کی تعداد ميں اضافہ ہوا ہے۔

اس عجائب گھر ميں جانے والے طلبہ کو پناہ گزينوں، ہجرت کے عمل، سياسی پناہ کی پاليسيوں اور ديگر امور کے بارے ميں تصاوير دکھائی جاتی ہيں اور معلومات فراہی کی جاتی ہيں۔ ميوزيم سے منسلک اوڈری موسونی عجائب گھر کے چکر کے بعد طلبہ سے بات چيت کرتی ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کوشش کے ذريعے وہ چاہتی ہيں کے طلبہ اس مسئلے کے بارے ميں سوچيں اور اس بارے ميں آگہی رکھيں۔

ايمی، سونا اور ديگر طلبہ کے ليے پينتاليس منٹ کا يہ سفر کافی مثبت تجربہ ثابت ہوا اور وہ يہ سمجھ پائے کہ ايک پناہ گزين کو کس قسم کے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔