1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ گزينوں کی مدد کے ليے فنکار ايک مرتبہ پھر سرگرم

عاصم سلیم
7 دسمبر 2016

اوکسام نامی بين الاقوامی تنظيم کے زير اہتمام امريکا ميں لوگوں کو مہاجرين کی مدد کرنے کی ترغيب دينے کے ليے ايک مہم شروع کی گئی ہے، جس ميں ہالی وُڈ کے کئی نامور ستارے بھی حصہ لے رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2Tsq5
Flüchtlinge Ungarn Flucht Gefahr
تصویر: Getty Images/D.Kitwood

امريکی شہر بوسٹن ميں قائم اوکسام نامی تنظيم کی جانب سے منگل چھ دسمبر کے روز ’آئی ہيئر يو‘ يعنی ’ميں تمہيں سن سکتا ہوں‘ کے عنوان کے تحت ايک مہم کا آغاز کيا گيا ہے۔ اس مہم ميں متعدد نامور اداکاروں اور اداکاراؤں کو دنيا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے  پناہ گزينوں کی آپ بيتياں سناتے دکھايا گيا ہے۔ چھوٹی چھوٹی ويڈيوز ميں دلوں کو چھو لينے والی داستانيں سناتے وقت کئی فنکاروں کی آنکھيں نم دکھائی ديتی ہيں۔

پناہ گزين اپنی اِن آپ بيتيوں ميں روز مرہ کے معمول، امن، مستقل رہائش کے انتظام، تعليم کی دستيابی اور ملازمت جيسی چيزوں کی خواہش کر رہے ہيں جبکہ وہ اپنے محلے ميں لوگوں سے ملنا جلنے، پارک میں جانے اور عرصے سے بچھڑے ہوئے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی کمی بھی محسوس کرتے ہيں۔

آج کل دُنیا بھر میں تقريباً پينسٹھ ملين افراد ايسے ہيں، جنہيں جنگ و جدل، قدرتی آفات، غربت، عدم مساوات اور ديگر اسباب کی وجہ سے اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ اوکسفام کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد سے بے گھر افراد کی يہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

اداکارہ مليسا ليو ايک شامی خاتون کی کہانی بيان کرتے ہوئے بتاتی ہيں، ’’ہمارا گھر تباہ ہو گيا تھا۔ ہمارے پاس کچھ نہيں بچا ہے۔‘‘ يہ خاتون ايک مہاجر کيمپ ميں مقيم ہيں اور ان کے شب و روز خيمے کی صفائی کرتے اور اپنے پوتے پوتيوں کی ديکھ بھال ميں گزرتے ہيں۔

يہ مہم گولڈن گلوب ايوارڈ کے ليے نامزد ہدايت کارہ جولی اين رابنسن نے شروع کی تھی۔ وہ اپنی اس مہم کے ذريعے عام لوگوں تک يہ بات پہنچانا چاہتی ہيں کہ مہاجرين اور پناہ گزينوں کے بھی وہی خواب ہيں، جو عام لوگوں کے ہوتے ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ميں بے گھر لوگوں کی کہانياں لوگوں تک پہنچانا چاہتی تھی، اسی ليے ميں نے يہ منصوبہ شروع کيا۔‘‘

اوکسام کے جانب سے جاری کردہ ايک بيان کے مطابق جولی اين رابنسن کا کہنا ہے کہ جب اتنا کچھ کيا جا سکتا ہے تو کوئی ضرورت نہيں کہ لوگوں کی تکاليف سے منہ موڑ ليا جائے۔