1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ حاصل کرنے میں ناکام تارکین وطن کی ملک بدری

10 فروری 2017

پناہ حاصل کرنے میں ناکام تارکین وطن کی جلد از جلد وطن واپسی کا جرمن منصوبہ۔

https://p.dw.com/p/2XLmo
[No title]
تصویر: Ehsan Hadid

جرمنی میں سال 2015ء کے وسط سے لے کر اب تک ایک ملین سے زیادہ مہاجرین اور تارکین وطن پناہ حاصل کرنے پہنچے۔ جرمن حکومت نے اب ایک ایسے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ملک بھر سے ایسے تارکین وطن کو ملک بدر کیے جانے کی رفتار میں اضافہ کر دیا جائے گا، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں رد ہو چکی ہیں۔ اس حوالے سے تین سوال، تین جواب۔

پناہ کی مسترد درخواستوں والے افراد کی واپسی کی شرح اب تک کیا رہی تھی اور اس کی وجہ کیا تھی؟

گزشتہ برسوں کے دوران پانچ لاکھ سے زائد افراد کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہوئیں مگر ان میں سے صرف 80 ہزار کو ہی ملک بدر کیا جا سکا۔ اس کی ایک وجہ تو سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے افراد کو حاصل حقوق کے حوالے سے جرمن اور بین الاقوامی قوانین تھے۔ دوسری طرف ان پناہ گزینوں کے آبائی ملک بھی ان کی واپسی کے عمل میں کم ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین بھی مہاجرین کی منظم ملک بدری کے حوالے سے تعاون بہت کم رہا۔ مثلاً وفاقی حکومت ایسے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنا چاہتی ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ لیکن پانچ صوبائی حکومتیں افغانستان میں امن و امان کی موجودہ مخدوش صورت حال کی وجہ سے انہیں واپس نہیں بھیج رہیں۔ اب لیکن جرمنی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اتفاق ہو چکا ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں ایک نیا قانون بنایا جا رہا ہے۔

Symbolbild Einwanderung - Grenzübergang Weil am Rhein - Basel
جرمنی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین بھی مہاجرین کی منظم ملک بدری کے حوالے سے تعاون بہت کم رہاتصویر: picture-alliance/dpa/M. Media

جرمن حکومت کی طرف سے اس فیصلے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

دراصل گزشتہ برس جرمنی میں پیش آنے والے دہشت گردی کے کچھ واقعات خاص طور پر برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر سیاسی پناہ کے ایک متلاشی کی طرف سے ٹرک چڑھا دینے کی وجہ سے جرمن حکومت پر کافی دباؤ تھا۔ اسی باعث جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت کی سیاسی حمایت میں کمی بھی ہوئی اور اُس پر عوامی دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ اس سال ستمبر میں جرمنی میں عام انتخابات بھی ہونا ہیں اور میرکل حکومت ظاہر ہے اُن جرمن ووٹروں کی حمایت بھی حاصل کرنا چاہتی ہے جو مہاجرین یا سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی اتنی بڑی تعداد میں جرمنی آنے پر نا خوش ہیں۔ پھر چانسلر انگیلا میرکل کا یہ بھی کہنا ہے، ایسے افراد کی واپسی سے یہ ممکن ہو جائے گا کہ جرمنی ایسے مہاجرین کو پناہ دے سکے، جو حقیقی معنوں میں پناہ کے حقدار ہیں۔

Angela Merkel EU Gipfel Brüssel
ایسے افراد کی واپسی سے یہ ممکن ہو جائے گا کہ جرمنی ایسے مہاجرین کو پناہ دے سکے، جو حقیقی معنوں میں پناہ کے حقدار ہیں, انگیلا میرکل​​​​​​​تصویر: picture-alliance/dpa/O.Hoslet

پناہ کے متلاشیوں کی اپنے اپنے ملکوں کو واپسی کے سلسلے میں جرمن حکومت کا لائحہ عمل کیا ہو گا ؟

جرمن حکومت نے پناہ گزینوں کو ملک بدر کیے جانے کا جو نیا منصوبہ بنایا ہے، اس کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین بہتر تعاون کی غرض سے جرمنی بھر میں 'ملک بدری کے مراکز‘ قائم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ رضاکارانہ طور پر جرمنی سے واپس جانے پر تیار تارکین وطن کو مالی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔ جرمن حکومت نے ایسے ممالک پر دباؤ بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جو اپنے شہریوں کی واپسی میں تعاون نہیں کر رہے۔ جرمنی کی وفاقی حکومت اور ریاستوں کے درمیان طے پانے والے نئے معاہدے میں جرائم میں ملوث پناہ گزینوں کو فوری طور پر ملک بدر کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔