پشاور میں کانگو وائرس کے مریضوں میں اضافہ
3 اگست 2015
صوبائی حکومت نے گزشتہ روز پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں، خیبر ٹیچنگ ہسپتال، لیڈی ریڈنگ اور حیات آباد میڈیکل ہسپتال میں اس مرض میں مبتلا مریضوں کے لیے الگ وارڈ بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں تاکہ انہیں باقی مریضوں سے الگ رکھ کر ان کا بہتر علاج کیا جاسکے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ خیبر پختونخوا ڈاکٹر جمال اکبر کے مطابق گزشتہ چند ماہ سے کانگو میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، تاہم اس میں زیادہ تر تعداد افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اب تک اٹھارہ افراد میں اس مرض کے علامات ظاہر ہوچکی ہیں جن میں چھ افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں، یہ تمام لوگ حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں زیر علاج ہیں۔ الگ وارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں چار پرائیویٹ کمروں کو کانگو کے مریضوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔‘‘
پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال، لیڈی ریڈنگ کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن ڈاکٹر لائق زادہ کہتے ہیں کہ اب تک کانگو وائرس سے متاثرہ افراد کو عام لوگوں کے ساتھ میڈیکل وارڈز میں رکھا جارہا تھا، جو ایک خطرناک اقدام ہے، تاہم اب اس کے لیے باقاعدہ الگ وارڈز بنائے جارہے ہیں تاکہ ان کا بہتر طور پر علاج کیا جا سکے۔ ڈاکٹر لائق کہتے ہیں کہ کانگو وائرس کا تعلق مویشیوں سے ہے، اس لیے اس مرض میں زیادہ تران لوگوں کے مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جو مال مویشی پالتے یا ان کا کاروبار کرتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں، ’’کانگووائرس مویشوں میں موجود پسو کی مدد سے لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، جس کے بعد سخت بخار کے ساتھ ساتھ مریض کے ناک، منہ اور جسم کے دوسرے حصوں سے خون خارج ہونا شروع ہوجاتا ہے، یہ علامات ظاہر ہونے کے بعد مریض کو آئسولیشن وارڈ یا یونٹ میں رکھنا چاہیے۔‘‘
حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں داخل کانگو وائرس سے متاثرہ مریضوں کی نگرانی کرنے والے میل نرس صدام حسین کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگوں کا تعلق بارڈر پار افغانستان سے ہے۔ کانگووائرس میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کے بارے میں صدام حسین کا کہنا ہے، ’’دوسرے وارڈز کے مقابلے میں کانگو وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیشہ ماسک اور دستانے پہن کر مریض کے پاس جانا چاہیے،کیونکہ تھوڑی سی لاپرواہی اور بے احتیاطی جان لیوا ہوسکتی ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دنوں کانگوکی وجہ سے اس یونٹ میں ایک مریض کاانتقال ہوچکا ہے، جس کا تعلق افغانستان ہی سے تھا۔