پشاور میں پولیو اہلکار کو ہلاک کر دیا گیا
11 ستمبر 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دسمبر 2012ء سے اب تک پاکستان میں انسداد پولیو کے لیے کام کرنے والی ٹیموں اور اہلکاروں کے خلاف مسلح حملوں کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ایک سینیئر پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہفتے کو دیر گئے پشاور کی پولیو ویکسینیشن مہم کے ایک سینیئر رُکن ڈاکٹر ذکاء اللہ خان کو قبائلی علاقے کے قریب ان کے گھر کے پاس موٹر سائیکل پر سوار افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ ویکسینشن مہم کے صوبائی ترجمان امتیاز احمد نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والی شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار نے آج اتوار 11 ستمبر کو قبول کر لی ہے۔ اس گروپ کے ترجمان احسان اللہ احسان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھیجے گئے اپنے بیان میں دھمکی دی کہ اس طرح کے مزید حملے کیے جائیں گے۔
پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے امریکی سی آئی اے کی ایما پر ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی طرف سے پولیو ویکسینیشن کا سہارا لینے کے بعد مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے ہر طرح کی ویکسینیشن کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مزید برآں بعض مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے یہ باور بھی کرایا جاتا ہے کہ انسداد پولیو مہم دراصل مغرب کی طرف سے مسلمانوں میں شرح پیدائش کم کرنے کی سازش ہے۔ اور پولیو کے قطرے پلانے کی آڑ میں بچوں کو بانجھ بنایا جا رہا ہے۔
شدت پسندوں کی طرف سے پولیو مہم کی مخالفت اور حملوں کے باوجود پاکستانی حکام کو امید ہے کہ سال 2018ء تک ملک کو پولیو سے مکمل طور پر پاک کرنے میں کامیابی حاصل کر لی جائے گی۔ پاکستان دنیا کے اُن دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں ابھی تک پولیو کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
رواں برس اپریل میں پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر کراچی میں پولیو ویکسینیشن ٹیم پر مسلح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔