1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور میں تازہ حملہ، کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوئے

16 نومبر 2009

پاکستانی شہر پشاور میں ایک اور خودکُش بم دھماکہ میں کم از کم پانچ افراد ہلاک جبکہ بیس افراد زخمی ہیں۔ پیر کی صبح یہ دھماکہ شہر کے نواح میں ایک پولیس اسٹیشن پر ہوا۔

https://p.dw.com/p/KYag
تصویر: AP

تمام ترکوششوں اوردعووں کے باوجود حکومت خودکش حملوں اور بم دھماکوں کو روکنے میں ناکام نظرآرہی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے روزانہ پشاور اوراس کے نواحی علاقوں میں تواتر سے بم دھماکے اور خود کش حملے کئے جارہے ہیں۔ دہشت گردی کے تازہ واقعے میں پشاورکے نواحی علاقے بڈھ بیر میں خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی پولیس سٹیشن کی دیوار سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ 43 زخمی ہوگئے۔ دھماکےمیں زخمی ہونے والوں کوسٹی ہسپتال اورلیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایاگیا۔ دھماکے میں زخمی ہونے والوں میں سے چندکی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ دھماکے کے نتیجے میں پولیس سٹیشن کی عمارت کو شدیدنقصان پہنچا، جبکہ قریبی مسجد کی عمارت مکمل طورپر مہندم ہوگئی۔ پولیس سٹیشن کے قریب تعینات فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ایک اہلکار نے ایک مشکوک گاڑی پر فائرنگ کی، جس کے ساتھ ہی زوردار دھماکہ ہوا۔ اس موقع پر موجود ایف سی اہلکار محمد عمر کا کہنا تھا: ’’گاڑی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ خودکش حملہ آور ہے۔ ہم نے اس پرفائرنگ کی، جس سے دھماکہ ہوا۔ ہم نے فوراًپورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور لوگوں کو دورہٹایا تاکہ کوئی دوسرا واقعہ رونما نہ ہو۔‘‘

Pakistan Auto Bombe Selbstmordanschlag Flash-Galerie
عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے سامنے مقامی انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہےتصویر: AP

لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے لئے آنے والے منتخب رکن اسمبلی اور سرحداسمبلی کے ڈپٹی سپیکر خوش دل خان نے دہشت گردوں کے خلاف مقامی لشکر کوحکومت کی جانب سے تعاون فراہم نہ کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا:’’وہاں جو ہمارے مقامی لوگوں کے لشکر ہیں حکومت ان کے ساتھ اس طرح امداد نہیں کرتی جس طرح حالات کاتقاضا ہے کہ یہ لوگ جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں لیکن ان کے پاس عسکریت پسندوں کامقابلہ کرنے کے لئے نہ تو وسائل ہیں اورنہ ہی جدید اسلحہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ امن لشکر کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔ ہم حکومت کے ساتھ جلدازجلد ایک مٹینگ کرنے والے ہیں تاکہ مقامی حلقےکے عوامی امن لشکر موثرکارروائی کرسکیں۔ اگر ان لشکروں کومضبوط نہ کیاگیا تو دہشت گردوں کو پشاورتک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اورحالت مزید خراب ہوں گے۔‘‘

جہاں سرحد اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر صوبائی حکومت کے بعض اقدامات کوتنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہاں سرحدحکومت کے ترجمان میاں افتخارحسین نے وزیرستان آپریشن کے بارے میں پیشگی اعلانات اورحکمت عملی کو تنقید کانشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے حکومت سے پشاورکے تمام سرحدی قبائلی اورنیم قبائلی علاقوں میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹیڈآپریشن کامطالبہ کیا ہے۔

Mindestens 50 Tote bei Anschlag in Peshawar
گزشتہ چند روز سے عسکریت پسندوں نے پشاور کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین نے وزیرستان کے آپریشن کے حوالے سے پیشگی اعلانات کوغلط حکمت عملی قراردیتے ہوئے کہا: ’’وزیرستان میں جو کارروائی جاری ہے، ایک ماہ قبل اس کا اعلان کردیا گیا تھا اور اسی اعلان کی وجہ سے وہاں موجود عسکریت پسندوں کوموقع ملا کہ وہ وہاں سے کسی اور علاقے میں شفٹ ہوجائیں اورآج خیبرایجنسی، مومند ایجنسی، درہ آدم خیل سے پشاورکے گرد گھیرا تنگ کردیاگیا ہے، جتنا وزیرستان پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے، اتنا ہی پشاور پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔‘‘

ان کا کہناتھا کہ اگر وزیرستان آپریشن سے ایک ماہ پیشتر ہی اعلان نہ کیا جاتا توآج یہ خمیازہ ہمیں نہ بھگتنا پڑتا۔ اس کے باوجود اورکزئی ایجنسی میں اتوار کے روز سیکیورٹی فورسز نے سولہ دہشت گردوں کومارا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اورکزئی، خیبر، مومند ایجنسی اور درہ آدم خیل میں مقامی دہشت گردوں نے وزیرستان سے بھاگنے والے عسکریت پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور انہی کے ساتھ مل کر پشاور اور اس کے نواح میں حملوں کا سلسلہ جارہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں براہ راست ٹارگٹ بنایا جائے۔

’’پشاوراورچارسدہ کو مومند ایجنسی، خیبرایجنسی اوردرہ آدم خیل سے نشانہ بنایاجارہاہے۔‘‘

صوبائی دارالحکومت پشاورکے تین اطراف قبائلی اورنیم قبائلی علاقے ہیں۔ ان قبائلی علاقوں میں صوبائی حکومت کا عمل دخل نہیں ہے۔ مومندایجنسی اورخیبرایجنسی میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف کئی بار آپریشن کئے گئے، تاہم صوبائی حکومت اورمقامی لوگ ان سے مطمئن نظرنہیں آتے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ مالاکند اور وزیرستان آپریشن کی وجہ سے عسکریت پسندپشاور کونشانہ بنارہے ہیں۔ گزشتہ دوہفتوں سے ان کارروائیوں میں تیز آئی ہے، جس میں درجنوں افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرستان آپریشن سے قبل سیاسی لوگوں کے اعلانات نے واقعی عسکریت پسندوں کو الرٹ کردیاتھا۔ سولہ جون کو گورنرسرحد نے آپریشن کا عندیہ دیا تھا جبکہ بعد میں مرکزی حکومت میں شامل وزراء نے بھی اس طرح کے اعلانات کئے۔ سترہ اکتوبر کو فوج نے وزیرستان میں آپریشن شرو ع کردیا۔ اس درمیانی مدت میں عسکریت پسندوں کو نکل جانے کا بھرپور موقع ملا۔

رپورٹ : فرید اللہ خان، پشاور

ادارت : عاطف توقیر