1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور دھماکہ ، مرنے والوں کی تعداد 17 ہوگئی

10 جون 2009

پشاورکے مقامی ہوٹل میں ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 17ہوگئی ہے امدادی کاروائیوں کے دوران ملبے سے مزید 6 نعشیں نکالی گئیں۔

https://p.dw.com/p/I72z
اس ہوٹل میں غیر ملکی بھی قیام پزیرتصویر: picture-alliance/ dpa

پولیس کے تحقیقاتی افسر قاضی جمیل کا کہناہے کہ دھماکہ میں پانچ سوکلوگرام وزنی بارودی مواد استعمال کیاگیا۔ ان کا کہنا ہےکہ ہوٹل کے ملبے سے آسٹریا اور فلپائن کے شہری ہوٹل منیجر اورپی آئی اے کے کپتان سمیت اقوام متحدہ کے دواہلکاروں کی نعشیں نکالی گئیں۔ غیرملکیوں کی نعشیں اسلام آباد پہنچادی گئیں ہیں۔

پشاور پولیس کے سربراہ صفت غیور کے مطابق خودکش حملے کے بعض شواہد مل گئے ہیں تاہم مکمل شواہد اکھٹےکئے جا رہے ہیں۔ جس کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کریں گے تاہم پشاور پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں سے طالبان کے ایک کمانڈر سمیت سات مشتبہ افرادکوگرفتار کیا ہے۔ اس خودکش حملے سے پشاور میں غیر ملکی اداروں کی سرگرمیاں محدود ہونے کے ساتھ اقوام متحدہ کے اداروں نے بھی اپنی سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔

Elf Tote bei Anschlag auf Luxushotel in Pakistan
دھماکے سے عمارت کا ایک حصہ زمیں بوس ہو گیاتصویر: picture-alliance/ dpa

دھماکہ کے بعد شہر بھر کی سیکیورٹی سخت کردی گئی جگہ جگہ چیک پوسٹ بنا کر شہر میں داخل ہونے تمام گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے جبکہ متعدد دینی مدارس اور کیموں میں مقیم افراد کی نگرانی بھی سخت کردی گئی ہے ۔صوبائی حکومت کے کئی وزراء نے ہسپتال جاکر متاثرہ افراد کی عیادت کی ہے۔ سرحد کے سینئر وزیر بشیراحمد بلور نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے: ’’دہشت گردی کے اس انتہائی بزدلانہ واقعے میں ملوث انتہا پسند عناصر دراصل ملک و قوم کی سلامتی کو داؤ پر لگا رہے ہیں اور دشمن قوتوں کی ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں مگر انہیں اپنے مکروہ اور گھناؤنے عزائم میں ہر گز کامیابی نہیں ہو گی اور نہ ہی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت اور عوام کا عزم کمزور ہو گا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں اور افغانستان سے قربت کی وجہ سے پشاور میں دہشت گردی کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں اور حکومت کو ان سے نمٹنے میں مشکلات درپیش ہیں مگر یہ طے ہے کہ ایسے عناصر جلد حکومت اور قانون کے شکنجے میں آنے کے علاوہ قہر خداوندی کا بھی شکار ہوکر عبرتناک انجام سے دوچار ہوں گے۔

ادھر جانی خیل کے علاقے میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن میں اب تک 70افراد ہلاک ہوئے ہیں سیکیورٹی فورسز نے بنوں کینٹ سے شرپسندوں کے ٹھکانوں پر بھاری توپخانے سے گولہ باری کی ہے آپریشن میں گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ جانی خیل اور بکا خیل میں گزشتہ روز انتظامیہ نے اس وقت آپریشن کرنے کافیصلہ کیا جب علاقے کے لوگوں نے رزمک کیڈٹ کالج کے طلبہ کے اغواء میں ملوث افراد کوانتظامیہ کے حوالے نہ کرنے کافیصلہ کیا بنوں میں کرفیو کے بعد مقامی آبادی کو قریبی کیمپوں میں جانے کی ہدایت کی گئی ۔آپریشن کے بعد بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔

رپورٹ : فرید اللہ خان، پشاور

ادارت : عاطف توقیر