1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پریشان حال افغان فوج کو ہلاکتوں اور بھگوڑوں کا سامنا

عاصم سليم18 جنوری 2016

طالبان عسکريت پسندوں کے خلاف لڑائی ميں افغان حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جن ميں فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا انتہائی زيادہ تناسب سر فہرست مسئلہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1HfCQ
تصویر: picture-alliance/landov/A. Aziz Safdary

افغان ليفٹيننٹ امان اللہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے ملک ميں طالبان عسکريت پسندوں کی پيش قدمیوں کو روکنے کے ليے اپنی آخری سانس تک لڑنے کے ليے تيار تھا۔ تاہم گزشتہ برس نومبر ميں اُس نے فوج کو چھوڑ ديا۔ امان اللہ يہ قدم اٹھانے والا واحد فوجی نہيں۔ ہزاروں افغان فوجی تھک ہار کر اور الجھنوں کا شکار ہو کر وردی اتار چکے ہيں۔ يہ پيش رفت طالبان شدت پسندوں کے خلاف لڑائی ميں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔

امان اللہ کے ليے سب کچھ اس وقت بدلا، جب گزشتہ برس جنگجوؤں نے اُس کے فوجی اڈے پر چاروں اطراف سے حملہ کر ديا اور لڑائی چار روز تک جاری رہی۔ مشين گنوں، راکٹ لانچروں اور ديگر اسلحے سے ليس اُن جنگجوؤں کے مدمقابل ايسے افغان فوجی کھڑے تھے، جنہيں کئی ماہ سے تنخواہيں نہيں مليں تھيں اور حملے کے وقت وہ خالی پيٹ تھے۔ اُس وقت مانگی گئی اضافی نفری کی درخواستوں کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور امان اللہ اپنے ساتھوں کو دم ٹوڑتے ديکھتا رہا۔

قندھار کے قريب واقع بيس ميں جب تين دن بعد جب لڑائی بند ہوئی تو امان اللہ اپنے تين ساتھيوں کے ہمراہ چلا گيا۔ اُس نے فوجی نوکری کو خير باد کہہ ديا۔ امان اللہ کے مطابق وہ فوج ميں اِس ليے شامل ہوا تھا تاکہ اپنے اہل خانہ کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی خدمت کر سکوں ليکن يہ نوکری سراسر خود کشی کے مساوی تھی۔

2015ء ميں افغانستان کو اپنے قريب 170,000 فوجی اہلکاروں کے ايک تہائی حصے کا متبادل تلاش کرنا پڑا، جس کی وجوہات ميں ہلاکتوں کی انتہائی اونچی شرح اور فوجيوں کا سروس کو چھوڑنا یا بغیر اطلاع کے بھاگ جانا شامل ہيں۔ يہ اعداد و شمار گزشتہ ماہ امريکی فوج کی جانب سے جاری کيے گئے تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان عسکريت پسندوں کے خلاف برسرپيکار افغان فوج کا ايک تہائی حصہ ان فوجيوں پر مشتمل ہے، جو ابھی ابھی تربيت ختم کر کے فوج کا حصہ بنے ہوں۔

’ووڈرو ولسن انٹرنيشنل سينٹر فار اسکالرز‘ ميں جنوب و جنوب مشرقی ايشيا کے ليے سينئر تجزيہ نگار مائيکل کوگلمين بتاتے ہيں کہ ’ٹرن اوور ريٹ‘ افغان سکيورٹی فورسز کو درپيش سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اونچے ٹرن اوور ريٹس کا مطلب يہ ہے کہ جب امريکی قيادت ميں بين الاقوامی افواج افغانستان سے مکمل انخلاء کرتی ہيں، تو اس وقت افغان دستے طالبان سے مکمل طور پر نہيں نمٹ پائيں گے۔‘‘

2015ء ميں افغانستان کو اپنے قريب 170,000 فوجی اہلکاروں کے ايک تہائی حصے کا متبادل تلاش کرنا پڑا
2015ء ميں افغانستان کو اپنے قريب 170,000 فوجی اہلکاروں کے ايک تہائی حصے کا متبادل تلاش کرنا پڑاتصویر: Reuters/A. Malik

امريکا اب تک افغان دستوں کی تربيت پر تقريبا پينسٹھ بلين ڈالر خرچ کر چکا ہے اور منصوبہ يہی ہے کہ امريکی دستوں کے انخلاء تک افغان دستوں کی تعداد کو ساڑھے تين لاکھ تک پہنچايا جائے۔ افغانستان ميں تعينات امريکی افواج کے سربراہ جنرل جان کيمبل نے گزشتہ برس اکتوبر ميں کانگريس کو بتايا تھا کہ افغان فوجيوں کا فوج چھوڑنے کی وجوہات کمزور قيادت اور باوردی ملازمین کو قطعاً چھٹياں نہ ملنا ہيں۔ ان کے بقول کئی مقامات پر افغان فوجی تين برس سے مسلسل مسلح لڑائی کا حصہ ہيں۔

افغان فوج ان دنوں نئی بھرتيوں کے ليے مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ فوج کی جانب سے ٹيلی وژن پر اشتہارات نشر کرائے جاتے ہيں، جن ميں ان فوجيوں کو دکھايا جا رہا ہے، جو ملک و قوم کے ليے بہت کچھ کرنے کو تيار ہوں۔ بڑے بڑے ہالوں ميں کھانا کھاتے ہوئے اور شاندار مقامات پر ورزش کرتے ہوئے فوجيوں کو ديکھا جا سکتا ہے۔ ليکن بہت سے سابقہ فوجيوں کا کہنا ہے کہ ميدان جنگ ميں افغان فوجيوں کی حالت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔