1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک جرمن تعاون کی نئی جہات، جرمن وزیر دفاع پاکستان میں

شکور رحیم، اسلام آباد9 دسمبر 2015

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور ان کی جرمن ہم منصب ڈاکٹر اُرزولا فان ڈیئر لاین نے اسلام آباد میں ایک ملاقات کے دوران افغانستان میں قیام امن اور خطے میں سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HJbN
جرمن وزیر دفاع ڈاکٹر اُرزولا فان ڈیئر لاین اسلام آباد ایئر پورٹ پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

منگل کو اس ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ جرمن وزیر دفاع ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس، استنبول پراسس‘ میں شرکت کے لیے منگل کو ہی افغاناستان سے اسلام آباد پہنچی تھیں۔

پریس کانفرنس میں جرمن وزیر دفاع کو خوش آمدید کہتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اور جرمنی کے درمیان خطے اور افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہٴ خیال کیا گیا۔ انہوں نے کہا:’’ہم نے مثبت اور تعمیری بات چیت کی اور ان امور کی نشاندہی کی، جو خطے میں سلامتی کی صورتحال پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور ان کے حل پر بھی بات کی۔ ہم نے مشرق وسطیٰ کے موجودہ بحران، مہاجرین کے بحران اور داعش سے متعلق بھی بات چیت کی۔‘‘

پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان اور جرمنی نے دفاع کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے مارچ دو ہزار بارہ میں مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے اور اب اس شعبے میں تعاون کی نئی جہتوں پر بات کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاع کے شعبے میں تعاون بڑھایا جائےگا۔

ڈاکٹر اُرزولا فان ڈیئر لاین نے گزشتہ سال دسمبر میں آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جرمنی کو اس حملے میں مارے جانے والے معصوموں سے ہمدردی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ پیرس حملوں کے بعد سے ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کے حملوں کا نشانہ بننے والوں کے لیے یہ سب کچھ سہنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے کتنی طاقت اور عزم چاہیے۔‘‘

Pakistan - Bundesverteidigungsministerin Ursula von der Leyen
جرمن وزیر دفاع ڈاکٹر اُرزولا فان ڈیئر لاین اسلام آباد ایئر پورٹ سے باہر آتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

انہوں نےکہاکہ وہ اس مرکزی کردار کو تسلیم کرنے اسلام آباد آئی ہیں، جو پاکستان خطے کے استحکام کے لیے اداکر رہا ہے۔ انہوں نے اسے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا کہ پاکستانی وزیر اعظم اور افغان صدر مشترکہ طور پر ہارٹ آف ایشیا کانفرس کا افتتاح اور میزبانی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا:’’ہر کو ئی جانتا ہے کہ ہم افغانستان کو مستحکم کرنے میں مدد دینے کے لیے پُر عزم ہیں اور ہر کوئی یہ بھی سمجھتا ہے کہ خطے میں استحکام تمام فریقوں کی مدد سے آئے گا۔‘‘

خاتون جرمن وزیر نے کہاکہ وہ اپنے پاکستانی ہم منصب کی اس بات سے متاثر ہوئی ہیں جس میں انہوں نے افغانستان کے امن کو پاکستان کا امن قرار دیا ہے۔

مہاجرین سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاکہ انہوں نے اپنی جرمن ہم منصب کے ساتھ پاکستان اور جرمنی میں مہاجرین سے متعلق بات چیت کی۔ انہوں نے کہا:’’جہاں تک جرمنی میں پناہ کے متلاشی پاکستانیوں کا تعلق ہے تو ان کا فیصلہ میرٹ پر کیا جائے۔ اگر کوئی اصل میں پناہ کا متلاشی ہے تویہ جرمن حکام پر ہے کہ وہ انہیں پناہ گزینوں کے طور پر قبول کریں اور ان کے کوائف کی تصدیق کریں اور اگر ایسے لوگ ہیں، جن کے کوائف مشکوک ہیں اور ان کی تصدیق نہیں ہو رہی تو یہ جرمن حکام پر ہے کہ وہ ان کو مسترد کر دیں۔‘‘

جرمن وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ مہاجرین سے متعلق بات چیت کا مرکزی نقطہ یہ رہا کہ ان کا منبع کہاں ہے اور یہ کہ یورپ میں مہاجرین کے مسئلے سے کس طرح ڈیل کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں جرمن وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ داعش ہو یا دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے والا کوئی اور، اس کے خلاف کامیابی کے لیے فوجی ذرائع کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط سیاسی عمل اور اقتصادی ترقی بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا:’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے شکار ملک کے پڑوسی ایک میز پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور بات کریں کہ دہشت گردی کے خلاف کس طرح لڑنا ہے۔ شام کے معاملے پر ویانا میں ایک ایسے ہی عمل کا آغاز ہوا ہے۔ اور اب ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا پاکستان اور افغانستان کے سربراہان کے ذریعے افتتاح بھی خوش آئند ہے۔‘‘

Pakistan Verteidigungsminister Khawaja Muhammad Asif
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصفتصویر: picture-alliance/Anadolu Agency

داعش کی افغانستان اور پاکستان میں موجودگی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا:’’ہمارے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبے داعش سے متاثر ہوئے ہیں لیکن ان اطلاعات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔‘‘

جرمن وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’ہم نے داعش کے نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا کے دوسرے خطوں میں پھیلاؤ سے متعلق بات کی اور اس میں ایک اچھی پیشرفت یہ ہے کہ ہمارے ممالک اور خطوں میں اس بات کی آگاہی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کی اصل جڑ کو ختم کرنا ہے جو داعش کی یا کسی اور شکل میں ہو‘۔

اسی دوران پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے منگل کی شب ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے شرکاء کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سمیت کانفرنس میں شریک تمام ممالک کے نمائندوں نے اس عشائیے میں شرکت کی۔

کانفرنس کے دوسرے روز یعنی بدھ کو پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر کانفرنس کا باضابطہ افتتاح کیا۔کانفرنس کے اختتام پر ’اعلان اسلام آباد‘ کے نام سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیے جانے کی توقع ہے۔