1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت تعلقات، ٹیکنالوجی کا کردار اہم: بھارتی ہائی کمشنر

تنویر شہزاد، لاہور12 اگست 2015

لاہور میں اپنے ایک لیکچر میں بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون نےکہا ہے کہ بھارت کو اپنے عوام کے معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے اگلے 25 سالوں میں اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح کو سات سے آٹھ فی صد تک لے جانا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/1GEjp
Indieni High Commissioner T.C.A. Raghavan
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں متعینہ بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون لاہور میں ’پاکستان اور بھارت کے عوام کے لیے امن کے ثمرات‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئےتصویر: DW/T. Shahzad

اسلام آباد میں متعینہ بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ اقتصادی نمو کی اس شرح کو اس سطح پر برقرار بھی رکھنا ہو گا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کے تعلقات اس کے ہمسایہ ملکوں سے مستحکم اور اچھے ہوں۔ ان کے بقول یہ وہ بنیادی نکتہ ہے، جسے نظرانداز کر کے بھارت کی علاقائی اور عالمی پالیسیوں کو سمجھنا مشکل ہوگا۔

بھارتی ہائی کمشنر لاہور کے دو روزہ دورے کے اختتام پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے آڈیٹوریم میں خطاب کر رہے تھے۔ پاکستان اور بھارت کے عوام کے لیے امن کے ثمرات کے موضوع پر اپنے خصوصی لیکچر میں ٹی سی اے راگھون کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین امن قائم ہونے سے دونوں ملکوں کو اپنے عوام کی بہتری کے لیے کام کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا:’’میرے نزدیک پاک بھارت امن کا سب سے بڑا فائدہ عوام کی حالت میں آنے والی بہتری کی صورت میں نمودار ہو گا اور پاکستان اور بھارت اپنے عوام کو درپیش مسائل کو بہتر طور پر حل کر سکیں گے۔‘‘

ان کے بقول پاکستان اور بھارت کے پیچیدہ تعلقات کو سمجھنے کے لیے تاریخ سے آگاہی بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول پاکستان اور بھارت کی تاریخ صرف تنازعات سے نہیں بھری ہوئی ہے بلکہ اس میں کئی اچھی باتیں بھی ہیں جیسا کہ دونوں ملکوں کی سفارت کاری نے سندھ طاس معاہدہ کر کے پانیوں کے مسئلے کے حل میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ان کے بقول دنیا بھر میں ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بیک وقت تعاون اور مسابقت جیسے دونوں رویوں کو ہی لیے ہوئے ہوتے ہیں لیکن معمولی باتوں کو دونوں ملکوں کے مستقبل کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔

ان کے بقول اگر پچھلے 15 سالوں کے دوران پاک بھارت تعلقات پر نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری ضرور آئی ہے البتہ اس بہتری کے آنے کی رفتار بہت سست رہی ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر نے بتایا کہ وہ اس بہتری کا کریڈٹ حکومتوں یا ان کی پالیسیوں کو تو نہیں دینا چاہتے لیکن وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے میں ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

ان کے بقول کمونیکیشن کی دنیا میں آنے والے انقلاب اور دنیا بھر میں سفر کرنے کے رجحان میں اضافے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے لوگوں کو ایک دوسرے کے بارے میں براہ راست جاننے کے زیادہ مواقع مل رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے لوگوں کو ایک دوسرے کے اخبارات تک ایسی آن لائن رسائی پہلے میسر نہیں تھی۔ اب عوام اپنے طور پر آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ لوگ معلومات حاصل کر کے اور اپنا ذہن استعمال کر کے اپنے نتائج اخذ کرنے کے قابل ہو رہے ہیں، یہ وہ صورتحال ہے جو پاکستان اور بھارت کے عوام میں فاصلوں کی کمی کا باعث بن رہی ہے۔

انہوں نے اس موقع پر ممبئی کے رہائشی اُس بھارتی لڑکے کی مثال دی، جو فیس بک کی وساطت سے کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی ایک پاکستانی لڑکی کو پسند کرنے لگا۔ ویزہ نہ ملنے پر وہ کابل کے ذریعے غیر قانونی طور پر پاکستان آیا اور یہاں آ کر گرفتار ہو گیا۔ انہوں نے تقسیم ہند کے حوالے سے گوگل کے ایک اشتہار کا بھی ذکر کیا۔

اس موقع پر سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت میں سفری سہولتوں میں پیش آنے والی رکاوٹوں کی بڑی وجہ دونوں ملکوں کے مابین پائی جانے والی بد اعتمادی ہے۔ یہی بد اعتمادی غلطی سے سمندری حدود کراس کر لینے والے ماہی گیروں کی لمبی قید کا باعث بن رہی ہے:’’ٹرسٹ نہ ہو تو شکوک و شبہات کو ہوا ملتی ہے اور مسائل بڑھ جاتے ہیں۔‘‘

کشمیر کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جس طرح پاکستان کے لوگ کشمیر کے مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں، اسی طرح بھارتی لوگوں کی اس مسئلے سے وابستگی بھی شدید ہے۔

Indischer Soldat
جب بھی پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے لیے بات چیت شروع ہوتی ہے تو لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کون شروع کروا دیتا ہے، اس سوال پر بھارتی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دونوں ملکوں کا اپنا اپنا موقف ہے، اس تصویر میں ایک بھارتی فوجی سرحد پر چوکس بیٹھا نظر آ رہا ہےتصویر: AP

اس سوال کے جواب میں کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے لیے بات چیت شروع ہوتی ہے تو لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کون شروع کروا دیتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دونوں ملکوں کا اپنا اپنا موقف ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بھارت نے پاکستانیوں کو اب ملٹی پل انٹری کے ویزے بھی دینا شروع کر دیے ہیں۔ ان کے بقول یہ درست ہے کہ بھارت پاکستانی سیاحوں کے لیے ویزے نہیں دیتا لیکن ان کے مطابق روس میں ہونے والے حالیہ ملاقات میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مذہبی سیاحت کے لیے سفری سہولتوں میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سے پہلے دونوں ملکوں میں سیاحوں کے لیے گروپ ویزوں کے اجراء کے حوالے سے بھی بات چیت ہوتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تاخیر سے ویزے جاری کیے جانے کے مسئلے کو دیکھیں گے تاہم ان کا کہنا تھا کہ کسی پریشانی سے بچنے کے لیے ویزے کے حصول کے لیے پیشگی اپلائی کیا جانا چاہیے۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کی طرح بھارت کے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے ہمسایہ ملک کا میڈیا ان کے بارے میں شدید جذبات رکھتا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ بھارتی انتخابات میں پاکستان مخالف جذبات پر فوکس کر کے اتنخابی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ ان کے مطابق بھارت میں الیکشن فارن پالیسی پر نہیں لڑے جاتے۔ اس سے پہلے انسانی حقوق کمیشن کی وائس چئیرمین ڈاکٹر نازش عطاء اللہ نے بھارتی ہائی کمشنر کو خوش آمدید کہا جبکہ زمان خان نے مہمان سپیکر کا حاضرین سے تعارف کروایا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں