پاک افغان سرحد پر غیر معمولی نقل وحرکت
15 جولائی 2008پاکستان کےایک معروف دفاعی تجزیہ نگارنےکہا ہےکہ امریکہ پاکستانی قبائلی علاقہ جات میں 20 جولائی سے پہلے فوجی کاروائی کرے گا اور موجودہ حالات میں ان کی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پاک افغان سرحد پرنیٹوافواج کی نقل وحرکت میں گزشتہ رات سے تیزی آگئی ہے۔ سرحدی علاقے پرنہ صرف جدید اسلحہ بلکہ ہیلی کاپٹرزسمیت ہرقسم کاعسکری سامان بھی پہنچا دیا گیا ہے۔ پاک افغان سرحد پرواقع ایک گاؤں لوآرا منڈی کے ایک رہائشی اکمل خان کا کہنا ہے کہ وہ اتحادی افواج کوبا آسانی سے دیکھ سکتا ہے۔
طالبان کے ترجمان مولوی عمرنے ایک خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگرامریکہ یہاں کوئی کاروائی کرتا ہے تو ہ ہمارے لئے کسی تحفے سے کم نہیں کیونکہ اس طرح ہم اپنے دشمن کو باآسانی نشانہ بنا سکیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان پوری طرح تیار ہیں اوردشمن کومنہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
حکومت کا ابھی بھی یہ مؤقف ہے کہ امریکہ پاکستان کی سرزمین پرکاروائی نہیں کرے گا اوراسے ایسا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ لیکن حکومت چاہے کچھ بھی کہے یہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ جب قبائلی علاقوں میں کرنا چاہتا ہے کرگزرتا ہے اوربعد میں حکومت امریکہ سے صرف رسمی احتجاج کرتی رہ جاتی ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجرجنرل اطہرعباس کا کہنا ہے کہ یہ اتحادی افواج کی معمول کی نقل وحرکت بھی ہوسکتی ہے۔ میڈیا اس کوبہت زیادہ ہوا دے رہا ہے حالانکہ اس سلسلے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حکومتی حکام کے تمام دعووں کے باوجود زمینی حقائق کچہ اور تصویر دکھا رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مقامی افراد نے کسی ممکنہ کاروائی سے بچنے کے لئے نقل مکانی شروع کردی ہے۔
گزشتہ دنوں طالبان کی جانب سے افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف بڑھتی ہوئی کاروائیوں کی وجہ سے افغانستان میں موجود سیکیورٹی دستوں میں 38 فی صد کا اضافہ کیا گیا جس سے یہ تعداد بڑھ کر71 ہزارہو گئی ہے۔ جبکہ 90 ہزارپاکستانی دستے بھی سرحدی علاقے میں تعینات ہیں۔ سن 2003 سے لے کر اب تک پاکستانی فوجی اورنیم فوجی دستوں کے 1000 سے زائد اہلکار بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاک افغان سرحد پراس غیرمعمولی نقل وحرکت کے بارے میں جب اتحادی افواج کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے معذرت کی۔