1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے انقلابی شاعرحبیب جالب کی 17ویں برسی

12 مارچ 2010

معروف پاکستانی انقلابی شاعرحبیب جالب کی سترہویں برسی آج ایک ایسے وقت میں منائی جارہی ہے جب اُن کا شہر لاہور خون میں نہایا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/MRCL
لاہور میں رہنے والے جالب نے ملک کی کئی جیلوں کی ہوا کھائی۔ اس تصویر میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ حیدرآباد جیل میں کھڑے ہیں، جو انہیں ملنے کے لئے آئے تھےتصویر: Baask Wikipedia

جمعہ کو لاھور میں ہونے والے دو خودکش حملوں میں یہ سطریں لکھے جانے تک 40 کے قریب افراد موت کی آغوش میں چلے گئے جب کہ نوے کے قریب زخمی ہیں۔

1928ء میں پیدا ہونے والے حبیب جالب نے اپنی شاعری میں صرف افلاس زدہ انسانوں اور ظلمت کی ماری خلقت کے لئے لکھا ہی نہیں بلکہ ان کے حقوق کے لئے ساری زندگی عملی طور پرجدوجہد بھی کی۔

Muhammad Zia ul-Haq
جنرل ضیاء کے دورِ آمریت میں جالب نے جمہوریت کی بحالی کے لئے کوششیں کیتصویر: AP

ایوب خان کی آمریت ہو یا جنرل ضیاء الحق کی مطلق العنانیت، جالب نے ہر دور میں ظلم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ یہ صرف آمروں کے ادوار ہی نہیں تھے کہ جب جالب ظلم و زیادتی کے خلاف صدائے احتجاج بنے بلکہ انہوں نے جمہوریت کے لباس میں چھپے ہوئے آمرانہ فیصلوں کے خلاف بھی آواز بلند کی یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان میں جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپیئن اور سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے مخالفین کے خلاف بے دریغ طاقت کا استعمال کیا تو جالب سراپا احتجاج بن گئے۔

پاکستان کے نامور مزدور رہنما مختار رانا اور شعلہ بیاں سیاستدان معراج محمد خان کے ساتھ حبیب جالب کو بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دورِجمہوریت میں جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ لیکن قید و بند کی یہ صعوبتیں جالب کے عزم و حوصلے کو پست نہ کرسکیں اور انہوں نے جیل سے رہائی کے بعد بھی جمہوریت کی بحالی کے لئے بھرپور انداز میں جدوجہد کی۔

جالب نے اپنی شاعری رومانوی غزلوں سے شروع کی۔ ان کی کئی ابتدائی غزلوں میں عاشقانہ انداز جا بجا جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

جب چلے آئے چمن زار سے ہم

التفاتِ گل تر یاد آیا

تیری بیگانہ نگاہی سرشام

یہ ستم تابہ سحر یاد آیا

ہم زمانے کا ستم بھول گئے

جب ترا لطفِ نظر یاد آیا

لیکن رومانوی دنیا کے اس مسافرکو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ ادب صرف کسی حسینہ کی خوب صورتی کی مدح سرائی کرنا نہیں ہے اور نہ شاعری کا مطمع نظر کسی دلربا کے تبسم کے تذکرے میں زمین و آسمان کی قلابے ملانا ہے اور نہ ہی لفظوں کے تانے بانے صرف کسی مہ جبیں کے کرشماتی روپ کی نقشہ کشی کے لئے بنے جانے چاہییں۔

جالب کے خیال میں ادب ایک سماجی ذمہ داری ہے۔ اس انقلابی شاعر کی نظر میں ادب ایک بہت بڑا ہتھیار ہے، جسے ظلم، جبر، افلاس، جنگی جنون، فرقہ واریت اور مذہبی جنونیت کے خلاف استعمال کیا جانا چاہیے۔جالب کی شاعری میں جابجا ظلم کے خلاف لڑنے اور باطل سے ٹکرانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ وہ ہر ایسے قانون کے خلاف نظر آتے ہیں، جس کی بنیاد جبر، امارت اور تکبر پر ہو۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختہء دارسے

میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

ظلم کی رات کو جہل کی بات کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو

جام رِندوں کو ملنے لگے تم کہو

چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو

اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لُوٹ کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں

اب چلے گا نہ ہم پر تمھارا فسوں

چارہ گر درد مندوں کے بنتے ہو کیوں

تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

ایوب خان کے دور میں لکھی گئی اس نظم نے جالب کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور وہ ہر سیاسی جلسے کے مرکز نگاہ بن گئے۔عوامی مشاعرے اور سیاسی جلسے ان کی شرکت کے بغیر ادھورے محسوس ہونے لگے۔ حبیب جالب کے لفظ توپ، بندوق، اورٹینکوں کی طاقت سے لیس پاکستانی آمروں کے لئے خطرناک ہتھیاربن گئے۔

آمر حکمرانوں نے ان لفظوں کو قید کرنے کی کوشش کی۔ انہیں پابند سلاسل کیا۔ ان پر پہرے بٹھائے لیکن لفظوں کے یہ دھارے اتنے طاقت ور تھے کے انہوں نے ایوب سے لے کر ضیاء تک تمام آمروں کے خلاف عوام کے ایک سیل رواں کو اکٹھا کرنے میں ہر کارے کا کردار ادا کیا اور پھرعوامی طوفانوں میں یہ جدید دور کے شہنشاہ خس و خاک کی طرح بہے گئے۔ لیکن جالب ہر دور میں عوام کے ساتھ رہے،

گنتی کی چند شعاعوں سے اندھیرا نہ جائے گا

شب کا حصار توڑ کوئی آفتاب لا

ہر دور میں رہا ہوں میں لوگوں کے درمیاں

میری مثال دے، کوئی میرا جواب لا

جالب کے مخالفین ان کی مثال تو نہیں لاسکے، لیکن ادب برائے ادب کے پنڈتوں نے جالب کی شاعری کو نعرے بازی اور سیاسی بیانات سے تشبیہ ضرور دی۔ ناقدین نے ان کی شاعری کو اوسط درجے کا قرار دیا، جس میں اعلیٰ لفظوں اوراستعاروں کا فقدان تھا۔ جالب کے کئی ادبی حریفوں نے ان کی شاعری کو تخیل کی پرواز اور تخلیق کی معراج سے بھی خالی پایا۔

Zulfikar Ali Khan Bhutto
ذولفقار علی بھٹو کے جمہوری دور نے بھی جالب کو اسیری کا تحفہ دیاتصویر: picture-alliance/ dpa

لیکن جالب کی پرستاروں کا کہنا ہے کہ جالب ایک عوامی شاعر تھے جنہوں نے شاعری میں عام فہم اسلوب کو فروغ دیا تاکہ ایک عام آدمی بھی اس شاعری سے نہ صرف یہ کہ لطف اندوز ہو بلکہ اس میں ظلم کے خلاف لڑنے کا جذبہ بھی پیدا ہو۔

زندگی میں تو جالب نے مصائب ہی مصائب سہے لیکن موت کے بعد بھی ان کے گھر والوں نے کسی بھی طرح کی حکومتی سرپرستی کو مسترد کردیا۔ جالب کی موت پر جب اس وقت کی حکومت نے کفن دفن کے انتظامات کے لئے مالی امداد کی پیش کش کی تو ان کے گھر والوں نے اس پیش کش کو سختی سے مسترد کردیا۔

سرائے مقتل، ذکر بہتے خون سمیت جالب کی کئی کتابوں پر پابندی لگائی گئی لیکن تمام پابندیوں کے باوجود وہ آج بھی پاکستان کے مشہور عوامی شاعر ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے مشہور میوزک بینڈ 'لال' نے حبیب جالب کی نظموں کوگا کر انکے پیغام کو دنیا کے کئی حصوں میں پہنچایا۔

رپورٹ : عبدالستار

ادارت : افسر اعوان