1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی قومی اور دفتری زبانیں مختلف، حل کب نکلے گا؟

2 اپریل 2017

قیام پاکستان کے وقت سے چلے آ رہے دو متوازی تعلیمی نظاموں اور اردو سے متعلق کئی حکومتی اعلانات کے باوجود قومی زبان اردو ابھی تک دفتری زبان انگریزی کی جگہ نہیں لے سکی اور یہ تضاد آئندہ برسوں میں بھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

https://p.dw.com/p/2aVtN
Pakistan - Sprachdebatte Englisch oder Urdu
تصویر: DW/I. Jabeen

پاکستان میں بڑی صوبائی زبانوں پنجابی، سندھی، پشتو، اور بلوچی کے علاوہ بھی کئی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن پورے ملک میں رابطے کی زبان اردو ہے جو پاکستان کی قومی زبان بھی ہے۔ لیکن پاکستان کی بیوروکریسی پچھلی قریب سات دہائیوں سے دفتری زبان کے طور پر انگریزی زبان استعمال کرتی آئی ہے، جو ملک کے کسی بھی حصے کی عوامی زبان نہیں ہے۔

پاکستان میں انگریزی زبان کی عوامی مقبولیت اور اس پر دفتری انحصار ملک کے نوآبادیاتی ماضی کا ورثہ ہے۔ عملی طور پر پاکستانی ریاست، عوام اور حکمران آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے کہ اگر عوامی رابطے اور نوکر شاہی کی زبان ایک ہو گی تو وہ اردو ہونی چاہیے یا انگریزی۔

اس طویل تعطل کی ایک تازہ مثال یہ حالیہ بحث بھی ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے لیا جانے والا سی ایس ایس کا مرکزی امتحان اردو زبان میں لیا جائے یا انگریزی میں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ سالانہ امتحان اردو میں لیا جائے پھر اسی ہفتے ایک نئے فیصلے میں گزشتہ عدالتی حکم کو منسوخ کر دیا گیا۔

پاکستان میں قومی اور دفتری زبانوں کے طور پر اردو اور انگریزی کے درمیان مستقل رقابت آج تک ختم کیوں نہیں ہو سکی، اس بارے میں معروف دانشور اور اردو کی نامور ادبی شخصیت کشور ناہید نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ مسئلہ اس لیے ہے کہ ’نہ تو ہمیں اچھی اردو آتی ہے اور نہ ہی بہترانگریزی‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر بچے انگریزی میں امتحان دینا چاہتے ہیں تو انہیں دینے دیں۔ اگر اردو میں دینا چاہتے ہیں تو اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔

Pakistan - Sprachdebatte Englisch oder Urdu
1973ء کے آئین کے مطابق دس سال کے دوران اردو کو قومی زبان کے طور پر مکمل طور پر رائج کیا جانا تھا مگر دانشوروں اور اداروں نے اپنا کام نہیں کیا، ڈاکٹر محمد قاسم بوگھیوتصویر: privat

کشور ناہید کے بقول  مقابلہ زبانوں کا نہیں بلکہ علم و دانش کا ہے اور یہ دونوں چیزیں ہر زبان میں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کسی بھی بیوروکریٹ کے لیے بہت مستعد ہونے کی خاطر کسی خاص زبان پر انحصار ضرورری نہیں۔ کشور ناہید نے کہا، ’’اردو اور انگریزی کی تکرار چھوڑ کر بچوں کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی صلاحتیوں کو نکھارا جانا چاہیے تاکہ ان کا مستقبل بہتر اور محفوظ ہو اور انہیں ہر ممکنہ چیلنچ کے لیے تیار کیا جا سکے۔‘‘

اکادمی ادبیات پاکستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر محمد قاسم بوگھیو نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جب 1973ء کا آئین بنا تھا، تو یہ بھی طے ہوا تھا کہ اگلے دس سال کے دوران اردو کو قومی زبان کے طور پر مکمل طور پر رائج کیا جائے گا لیکن دانشوروں اور اداروں نے اپنا کام نہیں کیا اس لیے اب یہ صورتحال بنی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر بوگھیو نے کہا کہ اردو میں سی ایس ایس کے امتحان کے لیے پہلے اردو میں کتب شائع کی جائیں، ان تمام مضامین کی جن کا مواد اب تک صرف انگریزی میں میسر ہے۔ انہوں نے سوال کیا، ’’جب سی ایس ایس کے اکاون میں سے تینتالیس مضامین اردو میں ہیں ہی نہیں، تو طلبا یہ امتحان اردو میں کیسے دیں گے؟‘‘

گومل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کندی نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ترقی وہ قومیں کرتی ہیں، جن کی مادری زبانیں ترقی کریں۔ ملک میں تمام اعلیٰ سطحی امتحانات بھی مادری زبانوں میں ہی ہونا چاہیئں۔

پروفیسر ڈاکٹر کندی نے کہا، ’’کسی بھی ترقی یافتہ ملک کو دیکھ لیں، سائنس اور آرٹس کے مضامین ان کی اپنی زبان میں ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو اردو زبان نے زیادہ ترقی نہیں کی، دوسرا ہمارا نظام تعلیم بھی بیوروکریٹس کے لیے بنا ہے۔ ان کے بچے انگریزی میں تیز ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہی امتحان اردو میں لیا جائے، تو وہ فیل ہو جائیں۔ دوسری جانب کسی غریب شہری کا بچہ ہمیشہ انگریزی میں ہی فیل ہوتا آیا ہے۔ اس کے لیے اردو میں یہ امتحان دے سکنا بہت بڑی نعمت ہو گی۔‘‘

Pakistan - Sprachdebatte Englisch oder Urdu
اردو زبان میں تعلیم سے آپ افراد کو مقامی دنیا کے قابل تو بنا سکتے ہیں لیکن بیرونی دنیا کے لیے تیار نہیں کر سکتے، فاطمہ رباب حیدرتصویر: privat

معروف ماہر تعلیم اور تجزیہ نگار ڈاکٹر ناظر محمود نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امتحانات کی زبانیں دونوں ہونی چاہیئں، اردو بھی اور انگریزی بھی۔ اس لیے کہ جس کو انگریزی میں مہارت حاصل نہیں، لازمی نہیں کہ وہ کم صلاحیتوں کا مالک ہو۔ اگر کسی کو کسی بھی وجہ سے انگلش زبان پر مکمل دسترس حاصل نہیں، تو بھی اس پر سی ایس ایس کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں اگر عدالت صرف اردو زبان کے حق میں فیصلہ دے تو وہ بھی اتنا ہی غلط ہو گا جتنا صرف انگریزی کے حق میں کوئی فیصلہ۔ یہ بات اختیاری ہونی چاہیے۔ جو اردو میں امتحان دینا چاہے، اردو میں دے اور جو کوئی انگریزی میں دینا چاہے، وہ انگریزی میں۔‘‘

اردو زبان کے نفاذ کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر ناظر محمود کا کہنا تھا، ’’ایک عام، کم پڑھے لکھے پاکستانی کی زندگی اردو کے نفاذ سے خاصی آسان ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی بینک میں چلے جائیں تو اکاونٹ کھلوانے کے لیے انگریزی میں ایک فارم تھما دیا جاتا ہے، جو کبھی کبھی بینک والوں کو خود ہی پُر بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر یہی فارم اردو میں ہو تو ہر کسی کو آسانی سے سمجھ آ جائے۔‘‘

اسلام آباد کی NUST یونیورسٹی سے اقتصادیات میں بیچلرز کرنے والی فاطمہ رباب حیدر کے مطابق اردو زبان میں تعلیم سے آپ افراد کو ’مقامی دنیا‘ کے قابل تو بنا سکتے ہیں لیکن ’بیرونی دنیا‘ کے لیے تیار نہیں: ’’لیکن انگریزی میں تعلیم حاصل کر کے بیک وقت پاکستان اور بیرون ملک دونوں جگہوں پر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘

دوسری جانب پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر بی اے کا امتحان دینے والے راشد شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنا ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے: ’’لیکن اگر اردو میں امتحان دینے کی اجازت ہو تب۔ انگریزی میں یہ امتحان دینے کا تو میری طرح اردو میڈیم اداروں کے طلبہ سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘

Pakistan - Sprachdebatte Englisch oder Urdu
ہم نے او لیول اور اے لیول انگریزی میں کیا ہے، اردو لازمی مضمون بھی نہیں تھا تو پھر ہم جیسے اردو میں کوئی بڑا امتحان کیسے دے سکتے ہیں، ایمان مفتیتصویر: privat

ایمانی مفتی بھی بیچلرز ڈگری کے ایک پاکستانی طالب علم ہیں اور ان کا بھی سی ایس ایس کرنے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قانون بھی انگریزی زبان میں ہے اور بیشتر سرکاری ریکارڈ بھی۔ اس لیے انگریزی میں تعلیم سے بیوروکریٹس اپنے فرائض اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں جبکہ صرف اردو میں تعلیم حاصل کرنے سے یہ کام قدرے مشکل ہو جائے گا۔ ایمانی مفتی نے کہا، ’’اب ہم نے او لیول اور اے لیول انگریزی میں کیا ہے۔ اردو لازمی مضمون بھی نہیں تھا۔ تو پھر ہم جیسے اردو میں کوئی بڑا امتحان کیسے دے سکتے ہیں؟‘‘

سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والی قائد اعظم یونیورسٹی کی طالبہ فرہین سعید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں اردو رابطے کی زبان کے طور پر قومی زبان ہے اور ملک کی بہت بڑی اکثریت کی وہ مادری زبان بھی نہیں ہے: ’’تو اگر ہم اردو کو ملک کے اندر رابطے کے لیے اپنا سکتے ہیں تو پھر انگریزی زبان کو نظامت کے لیے کیوں نہیں؟‘‘