پاکستان کو توانائی کی پیداوارمیں مشکلات اور چین
24 فروری 2009توانائی کی کمی کے مسائل نےعام گھریلو صارف سے لے کر بڑی صنعتوں اورکارخانوں تک کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
بجلی اور گیس کی طویل لوڈشیڈنگ اور نرخوں میں اضافے سے صنعتی یونٹوں کی کاروباری لاگت میں اضافے اور پیداوار میں کمی نے بھی ملکی معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ اسی بحران کے سبب رواں سال میں صرف ٹیکسٹائل کے شعبے میں کم از کم 5 ارب ڈالر مالیت کے بیرونی آرڈر بھی منسوخ ہو چکے ہیں۔سابقہ حکومتوں کی کوتاہ اندیشی اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث پاکستان کو اس وقت جو مشکلات درپیش ہیں مستقبل قریب میں بھی ان سے چھٹکارہ ممکن نظر نہیں آ رہا۔ غالباً صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہی صدر آصف علی زرداری نے چین کا جو سرکاری دورہ کیا ہے اس میں توانائی کے حصول کے لئے معاہدوں اور سمجھوتوں کی یادداشتوں پر دستخطوں کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ انہی میں سے ایک معاہدے کے تحت چین پن بجلی کی پیداوار کے لئے پاکستان کو فنی اور تربیتی معاونت فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ اس دورے میں چین سے جوہری توانائی کے سمجھوتوں کے حوالے سے بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس حوالے سے اسلام آباد میں چائنیز سٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر فضل الرحمن نے بتایا:’’یقیناً چین پاکستان کا ایک دوست ملک ہے جو کہ توانائی کے شعبے پاکستان کے ساتھ بہت معاونت کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ ایک پراسس کا حصہ ہے جس میں پاکستان چائنہ کی ان کمپنیوں کو پاکستان آنے کی دعوت دے رہا ہے جو انویسٹمنٹ بھی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل ماحول کے ساتھ ہائیڈرو الیکٹریسٹی بھی پیدا کریں۔ تین بڑے ڈیموں کی انتظامیہ کے ساتھ انہوں نے مفاہمت کا ایک معاہدہ کیا ہے جس میں وہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں مدد فراہم کریں گے۔‘‘
یاد رہے کہ پاکستان اس وقت ملکی ضروریات پوری کرنے کے لئے صرف34% بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ موجودہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ جلد یہ پیداواری حجم %68 ہو جائے گا۔ تاہم مبصرین کے خیال میں تمام سرکاری دعوے اور منصوبے ہنگامی بنیادوں پر عملدرآمد کے بغیر شاید حقیقت کا روپ نہ دھار سکیں۔