1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، چھ روز میں چھ دھماکے

4 اپریل 2011

پاکستان کے شمال مغربی علاقے لوئر دیر میں ایک خود کش بم دھماکے میں کم از کم سات افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/10n8f
تصویر: AP

پولیس حکام کے مطابق دھماکہ اسلام آباد سے دو سو کلومیٹر دور ضلع لوئر دیر کے قصبے جندول کے ایک بس اڈے میں ہوا۔ دو سال پہلے پاکستانی فوج اسی اہم علاقے سے طالبان کے خلاف ایک آپریشن کر چکی ہے۔ ضلعی پولیس کے سربراہ سلیم مروت کے مطابق ایک کار شو روم کے قریب ہونے والے اس بم دھماکے میں 18 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مروت کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں خودکش حملہ آور کا سر مل گیا ہے۔ حملہ آور کی عمر سولہ سے سترہ برس کے قریب لگتی ہے۔‘‘

لوئر دیر کے مقامی ہسپتال کے سربراہ وکیل خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے پاس 15 زخمیوں کو لایا گیا ہے، جن میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے۔ سن 2007 میں اسلام آباد میں لال مسجد کے آپریشن کے بعد ملک بھر میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے لے کر ابھی تک طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کی طرف سے ہونے والے بم دھماکوں میں چار ہزار دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

Flash-Galerie Anschlag Pakistan Trauerfeier 09.03.2011
سن دو ہزار سات کے بعد ہونے والے بم دھماکوں میں چار ہزار دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

دیر میں ہونے والا حالیہ دھماکہ گزشتہ چھ روز کے دوران چھٹا دھماکہ تھا۔ گزشتہ روز ضلع ڈیرہ غازی خان میں تیرھویں صدی کے ایک بزرگ صوفی کے دربار پر دو خودکش حملے کیے گئے تھے۔ سخی سرور دربار میں ہونے والے خود کش دھماکوں میں کم از کم 50 افراد ہلاک جبکہ 90 افراد زخمی ہوئے تھے۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے مسلسل صوفی بزرگوں کے مزارات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دریں اثناء سخی سرور دربار سے پکڑے جانے والے خود کش حملہ آور سے تفتیش جاری ہے۔ اس حملہ آور کی بارودی جیکٹ پھٹ نہیں سکی تھی، جبکہ ایک دستی بم اس کے ہاتھ میں پھٹنے سے وہ زخمی ہو گیا تھا۔

گزشتہ جمعرات کو پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ایک دھماکے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں ایک قبائلی سردار بھی شامل تھا۔ اُسی دن چار سدہ میں جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں 13 افراد مارے گئے تھے۔ اس واقعے سے ایک دن پہلے بھی ان پر صوابی میں حملہ ہوا تھا،جس میں 10 افراد ہلاک ہوئے۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید