پاکستان: نئی آٹو پالیسی کا اعلان
21 مارچ 2016پاکستان کی آٹو انڈسٹری پر کئی دہائیوں سے جاپان کی سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا کمپنیوں کا راج رہا ہے۔ ان کمپنیوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ متحد ہو کر سستے ماڈلز کی گاڑیوں کو مہنگے داموں بیچتی چلی آ رہی ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی سربراہی میں آٹو پالیسی کو تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی نئی آٹو پالیسی سے متعلق ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’ اس نئی پالیسی کا مقصد نئی مارکیٹ اور گاڑیوں کے خریداروں کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔‘‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستانی آٹو انڈسٹری پر کافی عرصے سے ایک طرح کی اجارہ داری قائم ہے اور ابھی تک گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے موٹر کاروں میں حفاظتی ائیر بیگ، اینٹی لاک بریکنگ یا دھواں کے بہتر اخراج جیسی خصوصیات متعارف نہیں کروائیں ہیں جبکہ بیرون پاکستان کئی ملکوں کے صارفین کو یہ سہولیات میسر ہیں۔
خواجہ آصف نے پاکستان میں موجودہ کار کمپنیوں کے بارے میں کہا، ’’پاکستانی خریدار کو ایک 1800 سی سی گاڑی پر 26 لاکھ روپے خرچ کرنے کے باوجود اپنے پیسے کی قیمت وصول نہیں ہوتی‘‘
اس موقع پر سرمایہ کاری بورڈ کے چیرمین مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اس نئی آٹو پالیسی سے حکومت کو توقع ہے کہ ایک یا دو نئی کمپنیاں پاکستان کی گاڑیوں کی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔ اس پالسی کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ مارکیٹ میں اس پالیسی پر عمل در آمد کے بعد گاڑیوں کی قیمت کم ہوسکتی ہے۔
کار سازی کے پلانٹ کے لیے ڈیوٹی ختم کر دینے کے علاوہ، پاکستانی آٹو انڈسٹری میں شامل ہونے والی نئی کمپنیوں کو گاڑیوں کے اُن پارٹس کو درآمد کرنے پر صرف 10 فیصد ڈیوٹی دینا ہوگی جنھیں پاکستان میں نہیں بنایا جا سکتا جب کہ دوسرے پارٹس پر 25 فیصد ڈیوٹی دینا ہوگی۔ یہ مراعات حکومت نے آٹو انڈسٹری میں شامل ہونے والی نئی کمپنیوں کو آئندہ 5 برسوں کے لیے دی ہیں۔
تقریباً بیس کروڑ آبادی کے ملک پاکستان کی معیشیت سن 2008 کے بعد موجودہ حکومت کے دور میں رو بہ ترقی خیال کی گئی ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاروں کے بڑھتے اعتماد اور افراط زر میں نرمی کے باعث ایک عام صارف کی قوت خرید میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس جرمن کمپنی واکس ویگن کے ایک وفد نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا لیکن اب تک جرمنی کی اس بڑی آٹو کمپنی نے پاکستان میں مقامی فیکٹری لگانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔