1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں 80 فیصد سافٹ ویئر ’چوری شدہ‘

بینش جاوید25 مئی 2016

کاپی رائٹس کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کے باوجود سن 2015 میں ایشا پیسیفک میں 60 فیصد غیر لائسنس اور چوری شدہ سافٹ ویئر استعمال کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1IuHV
Neue Lebensmittel Lieferservice
بینکنگ، انشورنس اور سکیورٹی انڈسٹری میں 25 فیصد چوری شدہ سافٹ وئیر استعمال ہو رہا ہےتصویر: James Jeffrey

ایپل، مائیکرو سافٹ، انٹل، اوریکل اور اڈوب جیسی کمپنیوں پر مشتمل، ’دی سافٹ وئیر الائنس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ایشیا میں زير استعمال غیر لائسنس شدہ سافٹ وئیر کی ماليت 19.1 ارب ڈالر تھی۔ چوری شدہ سافٹ وئیر کا سب سے زیادہ استعمال بنگلہ دیش ، پاکستان اور انڈونیشیا میں ہے جہاں 80 فیصد سافٹ وئیر غیر لائسنس شدہ ہے۔ عالمی سطح پر اوسطً 40 فیصد سافٹ وئیر چوری شدہ ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر چوری شدہ سافٹ وئیر کے استعمال میں پچھلے دو برس کے دوران چار فیصد کمی آئی ہے لیکن اس کے مقابلے میں ايشا میں صرف ايک فیصد کمی آئی ہے۔ اس سافٹ وئیر الائنس کے ایشیا پیسیفک خطے کے سینئر ڈائریکٹر ٹارون ساونی کی رائے میں اس مسئلے کے حل کے لیے مزید اقدامات درکار ہيں، خصوصاً بینکنگ سیکٹر میں۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’گزشتہ دو برسوں میں چوری شدہ سافٹ ویئر کے استعمال میں کمی آئی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں اب بھی پائیریٹڈ سافٹ ويئر کا استعمال بہت زیادہ ہے۔‘‘

Bangladesch Gebäude der Bangladesh Central Bank
عالمی سطح پر اوسطً 40 فیصد سافٹ وئیر چوری شدہ ہےتصویر: Reuters/A. Rahman

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے کاروبار سائبر سکیورٹی کی پرواہ نہیں کرتے اور غیر لائسنس شدہ سافٹ ویئر کے استعمال کے حوالے سے بھی ان کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ ميں شامل ایک پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ بینکنگ، انشورنس اور سکیورٹی انڈسٹری میں 25 فیصد چوری شدہ سافٹ وئیر استعمال ہو رہا ہے۔

اس رپورٹ کے لیے کيے جانے والے سروے ميں 22000 کمپیوٹر صارفین اور 2000 انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو شامل کيا گيا تھا۔