پاکستان میں مسلسل امریکی حملے: مایوسی یا حکمت عملی؟
2 نومبر 2008پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکہ کے مسلسل حملے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے اعتیار سے متنازعہ ہے بلکہ یہ سیاسی طور پر بھی خطرناک ہیں۔ ان میں جتنے زیادہ شہری ہلاک ہو رہے ہیں، اسی قدر انتہا پسندوں کی حمایت ایں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن برلن، پیرس اور لندن کو واشنگٹن پر اعتراضات کرنے کی بجائے بالآخر کثیر القومی اسلامی عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے لیے ایک کار گر حکمت عملی تشکیل دئیے جانے پر غور کرنا چاہیے۔ مزید اسی سلسلے میں پاکستان پر پہلے سے زیادہ توجہ دینا چاہیے کیونکہ امریکی حملے، مایوسی اور فکری انتشار کا نتیجہ ہیں۔
امریکی مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ دو ہزار دو ء کے بعد سے مغرب کی مخالف شدت پسندی کو افغانستان سے ملحقہ پاکستانی سرحدی قبائلی علاقے میں دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا ہے، جہاں سے وہ افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں اور افغان فوج ، پولیس اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور افغانستان کی تعمیر نو کے کام میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
امریکہ کو اس پر بھی مایوسی ہے کہ پاکستانی حکومت نے دھشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی کی حیثیت سے اربوں ڈالر کی امداد حاصل کی لیکن اس کے باوجود وہ اس خطرے کو دور نہیں کر سکی ہے۔
انہی وجوہات کی بناء پر رواں سال موسم گرما سے امریکہ کے رویے میں سختی آگئی ہے۔ اگر پاکستان فوج اور حکومت اس پراحتجاج کرتی ہے تو یہ ایک ناٹک ہے کیونکہ جہاد کا نعرہ لگانے والوں کےقریب ترین رفقاء اسلام آباد میں خفیہ سروس آئی۔ ایس ۔آئی میں موجود ہیں۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری یہ جانتے ہیں کہ طالبان کی حکومت کو بہت کم پاکستانی پسند کرتے ہیں ان میں سے اکثر مختلف وجوہات کی بناء پر امریکہ سے دلی نفرت کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان کے دفاع کے حوالے سے دئیے جانے والے شعلہ انگیز بیانات بہت من پسند ہیں۔ تا ہم شدت پسندی اور دھشت گردی ایک عرصے سے پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ شٹائن مائر کا یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانا بہت ضروری ہے تا کہ یہ لرزہ براندام ایٹمی طاقت ڈھیر نہ ہوجائے۔ تا ہم اسلام آباد کو کثیر القومی شدت پسندی اور دھشت گردی کے خلاف جنگ میں موثر طور سے شامل کرنا بہت ضروری ہےصرف بغیر پائلٹ کے امریکی طیاروں اور لڑاکا طیاروں سے بمباری اسلم کے نام پر کی جانے والی دھشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے کارگر حکمت عملی نہیں ہے۔