پاکستان میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان
19 مئی 2010پاکستانی معاشرے میں، جس میں خاص طور پر درمیانے طبقے کے شہریوں کو ہر روز نظر آنے والے دہشت گردانہ حملوں سے لے کر مسلسل مہنگائی اور بےروزگاری جیسے گوں ناگوں مسائل کا سامنا ہے، شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی شرح مسلسل بڑھتی جا ر ہی ہے۔
اس میں بھی اپنی بیویوں کو طلاق دینے کے خواہشمند مردوں کے مقابلے میں ایسی خواتین کی شرح مقابلتا زیادہ ہوتی جا رہی ہے، جو مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے شوہروں سے قانونی علیحدگی کے لیے پاکستانی عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں۔
راولپنڈی کی ایک خاتون زہرہ بی بی نے، جو اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کیے ہوئے ہیں، ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں کہا: ’’میرا شوہر مجھ پر روزانہ تشدد کرتا تھا۔ مجھے عمومی اخراجات کے لئے کوئی رقم بھی نہیں دیتا تھا۔ اسی لئے میں نے اس سے علیحدگی اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔‘‘
قانونی ماہر ین کے مطابق صرف راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں سے روزانہ تقریبا بارہ سے سولہ واقعات میں شادی شدہ افراد قانونی علیحدگی کے لئے مقامی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔
اس رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک تو پاکستان میں معاشرتی سطح پر پدرشاہی کی سوچ ابھی تک پائی جاتی ہے، جس کے باعث سارے ہی گھرانوں میں مردوں کا اپنی بیویوں سے رویہ ہمیشہ منصفانہ نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ خواتین میں اپنے معاشرتی اور خاندانی حقوق کے حوالے سے بڑھتا ہوا شعور بھی ان کے ایسے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے کہ ناانصافی کی صورت میں اکثر خواتین طلاق کے حصول کے لیے عدالتی کارروائی میں پہل کرنے لگی ہیں۔
تحفظ حقوق نسواں کے لئے سرگرم ایک غیرسرکاری پاکستانی تنظیم ’سنگی‘ کی منتظم عارفہ مظہر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ طلاق کے واقعات کی شرح میں مسلسل اضافہ اس پیش رفت کا نتیجہ ہے کہ اب پاکستانی خواتین میں ناانصافی کے خلاف ذاتی اور اجتماعی شعور کی بیداری ایک مسلسل عمل بن چکا ہے اور عام عورتیں ماضی کے مقابلے میں آج اپنے حقوق سے بہتر طور پر آگاہ ہیں۔
پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل عابد ساقی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا کہ طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کمی کے لیے مردوں اور خواتین دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرنا ہوگی اور مل کر صورتحال کو بہتر بنانا ہو گا۔
معاشرتی سطح پر چونکہ ہر خاندان ایک سماجی اکائی ہوتا ہے، اس لیے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ خاندانوں کے ٹوٹنے کا یہ عمل معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ سماجی شکست وریخت کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
اس سلسلے میں ضروری ہے کہ عام آدمی کی خاندانی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ کوئی بھی طلاق اگر انسانی اور ازدواجی اختلافات، مادی محرومی یا پھر انفرادی ناانصافی کا نتیجہ ہوتی ہے، تو ان عوامل کے تدارک سے سب سے چھوٹی سطح پر پائی جانے والی اس سماجی ٹوٹ پھوٹ کا سدباب بھی کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں، اسلام آباد
ادارت : سائرہ حسن