1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیلاب متاثرین کی تعداد 81 لاکھ سے زائد

20 ستمبر 2011

پاکستان جنوبی صوبے سندھ میں سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ افراد کی تعداد 81 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بھی ساڑھے تین سو تک پہنچ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/12cy9
رفعت سعید سیلاب زدگان کے مسائل جانتے ہوئے
رفعت سعید سیلاب زدگان کے مسائل جانتے ہوئےتصویر: DW

کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی اکیلے نہیں آتی۔ ملک کے ایک ایسے حصے میں جہاں پہلے ہی غربت اور پسماندگی کا راج تھا وہاں سیلابی  پانی موت تو لایا ہی مگر زندہ انسانوں کے لیے بھی مہلک صورتحال اپنے ساتھ لایا ہے۔

 بدین، تھرپارکر، سانگھڑ اور  عمرکوٹ سمیت صوبہ سندھ  کے علاقوں میں

افلاس میں ڈوبے انسان سیلابی پانی سے غرقاب ہورہے ہیں مگر وفاقی حکومت کی ریلیف کمیٹی کے رکن راجہ پرویز اشرف نے میڈیا کو بتایا ہے کہ سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں ریسکیو کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے، مگر اب حکومت کو لاکھوں متاثرین سیلاب کو وبائی امراض سے محفوظ رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف نے بھی تباہی کے مقابلے میں سیلاب زدگان کی ناکافی سرکاری امداد پر تنقید کی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بھی ساڑھے تین سو تک پہنچ گئی ہے
اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بھی ساڑھے تین سو تک پہنچ گئی ہےتصویر: DW

سیلاب متاثرین کی دوبارہ آباد کاری اوربحالی سے قبل کے حالات سے نمٹنے کے لیے سرکاری سطح پر جو انتظامات کیے  گئے ہیں وہ متاثرین کی تعداد اور تباہی کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔ ہندو برادری کے لیے امدادی سرگرمیاں سرانجام دینے والے ایک ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ  متاثرہ علاقوں میں امراض چشم، جلدی امراض اور گیسٹرو کے علاوہ پیٹ کے دیگر امراض اورملیریا سرفہرست ہیں۔

حکومتی دعوﺅں کے مطابق مجموعی طور پر 2,792 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور 5لاکھ 55ہزار900 افراد کو ان کیمپوں میں رکھا گیا ہے جبکہ  54 ہزار افراد کو ان کے گھروں میں واپس منتقل کیا گیا ہے۔ زیرآب علاقوں میں پینے کی قلت ہے، جبکہ حاملہ خواتین کو اسپتالوں تک رسائی میں مشکلات کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا ہے۔ مچھروں کی بہتات نے سیلاب متاثرین کی زندگی مزید اجیرن کردی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے وبائی امراض کے خطرات کے علاوہ دوسرے کئی مسا ئل بھی درپیش ہیں۔

متاثرہ علاقے کی ایک لیڈی ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ اسپتالوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے حاملہ خواتین کو کئی مسائل کا سامنا ہے
متاثرہ علاقے کی ایک لیڈی ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ اسپتالوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے حاملہ خواتین کو کئی مسائل کا سامنا ہےتصویر: DW

بچوں اوربڑوں میں ملیریا پھیلنے سے اب تک سولہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق مجموعی طورپر ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزارسے متجاوز ہوچکی ہے۔ متاثرہ علاقے کی ایک لیڈی ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ اسپتالوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے حاملہ خواتین کو کئی مسائل کا سامنا ہے جبکہ حکومت کی طرف سے ابھی تک ایسی خواتین کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔ 

حاملہ عورتیں جنہیں اس کیفیت میں آرام یا کم از کم پر امن حالات کی ضرورت ہوتی ہے، کھلے آسمان تلے بارش یا دھوپ کی سختیاں سہنے پر مجبور ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ اضلاع  میں وبائی امراض کے تدارک کے لیے اگر بر وقت اور بھرپور اقدامات نہ کیے گئے تو میں خدشہ ہے کہ  وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں جو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: افسر اعوان

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں