1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیاسی و اقتصادی عدم استحکام اور اعلیٰ حکام کے بیرون ملک دورے

امتیاز گل ، اسلام آباد23 فروری 2009

پاکستان میں سیاسی و اقتصادی عدم استحکام ، امن و امان کی مخدوش صورت حال اور مسلسل غیر یقینی کی کیفیت حکومتی کارکردگی پر متعدد سوالات کو جنم دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/GzlR
پاکستانی صدر اپنی بیٹیوں بختاور اور آصفہ کے ہمراہتصویر: picture-alliance / dpa

ان حالات میں عام آدمی حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کی بہتات، وفاق اور صوبوں میں جہازی سائز کی کابیناؤں، آمدنی سے بڑھ کر اخراجات کو ملکی وسائل پربوجھ تصور کر رہا ہے۔ اس وقت بھی صدر آصف علی زرداری چین جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی امریکہ کے دوروں پر ہیں۔

Parkistan Politik Sharif
پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ کی نااہلی کیس کی سماعت پاکستانی سپریم کورٹ کر رہی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

اس صورت حال میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ حکمران اندرونی مسائل کا حل بیرون ملکی دوروں میں کیونکر تلاش کررہے ہیں۔ ساؤتھ ایشیاء ٹیرارزم پورٹل کے مطابق 2007ء میں تشدد کی وجہ سے پاکستان میں 3700 جب کہ 2008ء تقریباً6000 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ بیرونی ممالک کی امداد تلاش کرنے والے یہ حکمران کیا پاکستان کے عوام کے ساتھ مخلص بھی ہیں یا نہیں؟ دوسری طرف تجزیہ نگاروں کے خیال میں موجودہ حکومت کی کارکردگی گڈ گورننس یعنی اچھی حکمرانی کے لئے متعین بین الاقوامی معیارات کی نفی بھی کر رہی ہے۔ اس بارے میں سنٹرفار ریسرچ اینڈسیکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فرخ سلیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’ورلڈ بینک کے مطابق حکومت کوپرکھنے کے چھ مختلف پیمانے ہیں جن میں پہلا احتساب، دوسرا کرپشن پر قابو، تیسرا ریگو لیشن کامعیار، چوتھا مؤثرحکومت، پانچواں تشدد میں کمی اور چھٹا قانون کی حکمرانی ہے ۔ تو اس میں کم از کم چار ایسے پیمانے ہیں جن میں کوئی فرق نہیں آیا جو حال پچھلی حکومت کے دوران تھا وہی حال اس حکومت کے دوران بھی ہے۔ جب کہ دو پیما نے ایسے ہیں جو کہ خراب ہوئے جن میں تشددمیں کمی اور مؤثرحکومت شامل ہے۔‘‘

Protestierende Anwälte in Islamabad, Pakistan
وکلاء تحریک نے اگلے ماہ لانگ مارچ کی کال دی ہے اور نواز شریف کی جماعت نے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہےتصویر: AP

سیاسی سطح پر وفاق اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں برسر اقتدار بالترتیب پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی باہمی چپقلش بھی زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز کی طرف سے 16 مارچ کو اسلام آباد میں وکلاء کے دھرنے کی حمایت نے سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس صورت حال کو سیاسی تجزیہ نگار پاکستان میں 1990ء کی دہائی میں ہونے والی دونوں بڑی جماعتوں کی شدید محاذ آرائی کی سیاست کے دوبارہ ظہور سے تعبیر کر رہے ہیں اور اسی لئے ایک بار پھر ہر خاص و عام تجسس کے ساتھ وکلاء کے مارچ کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز، دوسری جماعتوں اور مسلح افواج کے طرز عمل کا انتظار کر رہا ہے۔