1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ’مری بریوری‘، شراب کی ترقی کرتی ہوئی صنعت

عاطف بلوچ12 ستمبر 2016

روزافزوں ترقی کی راہوں پر گامزن ’مری بریوری‘ نامی کمپنی دیگر اقسام کی شرابوں کے علاوہ سالانہ بنیادوں پر دس ملین لیٹر بیئر بھی کشید کرتی ہے تاہم پاکستان میں شراب کی مانگ کے مقابلے میں یہ مقدار کافی کم معلوم ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1K0WX
Brauerei Hops & Barley
تصویر: Getty Images

اسلامی جمہوریہٴ پاکستان کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھنے والے افراد کے لیے یہ بات شاید کچھ تعجب کا باعث ہو کہ راولپنڈی میں قائم فوجی ہیڈ کوارٹرز کے قریب ہی واقع اس فیکٹری کے شراب کشید کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک کے ستانوے فیصد مسلمان شہریوں کے شراب پینے پر پابندی ہے تاہم اقلیتوں مثال کے طور پر ہندو اور مسیحی کمیونٹی کے لیے ایسی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔

اگرچہ ’مری بریوری‘ بظاہر پاکستان کے صرف تین فیصد عوام کے لیے شراب کشید کرتی ہے لیکن زیادہ پیداوار کے باوجود اس کمپنی کے لیے طلب و رسد میں توازن رکھنا مشکل ہے۔ یہ کمپنی سن 1860 میں برطانوی راج کے وقت قائم کی گئی تھی۔ اب اس کا مالک ایک پارسی ہے۔ اس کمپنی کو مسلمان مظاہرین نے جلایا بھی، اسلامی انتہا پسندی کے دوران یہ بند بھی رہی لیکن پھر بھی اس پر قانونی طور پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔

ستّر کی دہائی میں پاکستان میں شراب نوشی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود مری بریوری پاکستان کی سب سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنوں میں سے ایک ہے۔ اسلامی انتہا پسندی کی شورش کے باوجود شراب کے اس کارخانے کی سالانہ شرح نمو میں پندرہ تا بیس فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

بریوری سے وابستہ اعلیٰ اہلکار میجر صبیح الرحمان نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کمپنی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کر رہی ہے، اس لیے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، ’’ہم پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ سب کے مفاد میں ہے کہ مری بریوری ایک قانونی بزنس کے طور پر ترقی کرتی رہے۔‘‘

مری بریوری کے بیئر کا ایک کین تین سو روپے (تین ڈالر) میں خریدا جا سکتا ہے لیکن بلیک مارکیٹ میں اس کی قیمت بیس ڈالر یا اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں لوگوں کی ماہانہ تنخواہ کی اوسط تیرہ ہزار روپے (ایک سو تیس ڈالر) ہے، جس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ تین سو روپے کا ایک کین عام صارف کی دسترس سے باہر ہے۔

منشیات کے عادی افراد کا علاج کرنے والے ایک ماہر طاہر احمد نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’آف لائسنس سٹورز ایسے لوگوں کو شراب فروخت کرتے ہیں، جو قوتِ خرید رکھتے ہیں، اور صرف مسلمان ہی اقتصادی طور پر اتنے مستحکم ہیں کہ وہ اتنی قوت خرید رکھتے ہیں۔‘‘

Tschechische Republik Pilsner Urquell
’مری بریوری‘ سالانہ بنیادوں پر دس ملین لیٹر بیئر بھی کشید کرتی ہےتصویر: picture alliance/dpa/P. Eret

پاکستان میں شراب نوشی کی شرح میں اضافے پر تشویش رکھنے والے اس معالج نے مزید کہا، ’’متوسط طبقہ ہی (شراب نوشی کے حوالے سے) اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھتا ہے ورنہ امیری کی طرف مائل اپر کلاس کے لیے الکوحل کا استعمال ایک عام سی بات بن چکا ہے۔ مہمانوں کو شراب پیش کی جاتی ہے اور یہ سماجی طور پر ایک متوقع عمل بن چکا ہے۔‘‘

مری بریوری میں بننے والی شراب غیر ممالک میں اسمگل بھی کی جاتی ہے۔ ایک کسٹم اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ’’زیادہ تر اسمگلنگ دبئی کے راستے کی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے سمندری راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘ شراب کے غیرقانونی بیوپاری متعلقہ حکام کو رشوت دے کر بریوری کے شراب کے کنٹینرز ہی کراچی لے آتے ہیں، جو لانچز کے ذریعے آگے اسمگل کر دیے جاتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں