1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان مبینہ ملزمان کو ایران کے حوالے کرے، احمدی نژاد

رپورٹ: عبدالرؤف / ادارت: عدنان اسحاق19 اکتوبر 2009

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی صدر پاکستان سے ٹیلفونک گفتگو، دہشت گردی جڑ سے ختم کرنے کا دو طرفہ عزم۔

https://p.dw.com/p/KALL
تصویر: AP

ایران میں ہوئے حالیہ خودکش حملے کے حوالے سے آج ایرانی صدر نے اپنے پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کی اس واردات میں ملوث عناصر کو پکڑنے کیلئے پاکستان ایران کی مدد کرے۔ ایرانی نیوزایجنسی ارنا کے مطابق " دونوں صدورنے اس بات پر زور دیا ہے کہ معاملے کی چھان بین کیلیے دونوں ملک ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کریں گے"۔ ارنا کے بقول دونوں نے اس سلسلے میں مشترکہ تعاون پر بھی اتفاق کیا ہے۔ تاہم اس کے متعلق وقت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ بلوچستان کی سرحد کے قریب ایرانی صوبے سیستان کے شہر زاہدان میں اتوارکے روز ہوئےخودکش حملے میں پاسداران انقلاب کے7 سینئر کمانڈروں، جن میں گراؤنڈ فورس کے نائب کمانڈر جنرل نورعلی شوستانی اور ایک صوبائی چیف کمانڈررجب علی محمدزادہ سمیت 42افراد ہلاک اورکم از کم 42 زخمی ہو گئے تھے۔

مقامی ایرانی میڈیا کے مطابق، حملے کی ذمہ دار سنی عسکریت پسند تنظیم جند اللہ نےقبول کر لی ہے، جبکہ دوسری جانب ایران کے صدرنے الزام عائد کیا ہے کہ حملہ آوروں کو پاکستانی سکیورٹی ایجنٹس کی معاونت حاصل تھی لہٰذا اسلام آباد حکومت اس حملے میں ملوث مبینہ افراد کو ہمارے حوالے کرے۔ تہران میں پاکستانی سفارت خانہ کے ایک سینئراہلکارکوبھی دفترخارجہ طلب کرکے واقعے پر احتجاج کیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر ماشاء الله شاکری کا بھی کہنا ہے کہ جندالله کے سربراہ عبدالمالک ریگی پاکستان میں ہیں۔ پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے اس الزام کو مستردکرتے ہوئے کہا کہ "سنی شدت پسند تنظیم جنداللہ کے سربراہ کی پاکستان میں موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں"دوسری جانب وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کوان کے ایرانی ہم منصب نے فون پر ہونے والی گفتگو میں اس دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ ایران کے انقلابی گارڈزکی مقبولیت اور ان کی اہمیت گذشتہ مہینوں کے دوران بڑھی ہے، کیونکہ ایران کے حالیہ صدارتی الیکشن کے دوران گارڈز نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے گارڈز کے اس دستے پرحملہ تہران حکومت پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے ۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں دہشت گردی کی اس کارروائی کو ایران کی مقامی سنی عسکریت پسند تنظیم جنداللہ ، پاکستانی طالبان سے ان کے روابط اور القاعدہ سے ان کے تعلقات، ان تینوں تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے پاکستان کا تعاون ہر صورت میں درکار ہوگا۔