پاکستان سے تعلقات: بھارتی وزیر اعظم کی وضاحت
29 جولائی 2009وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بدھ کے روز پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ٹرسٹ اینڈ ویریفائی کے اصول پر آگے بڑھنا ہوگا اور آج کے حالات میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ قبل ازیں وزیر اعظم کی صنتعی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے گروپ یعنی جی آٹھ کی چوٹی کانفرنس اور ناوابستہ تحریک چوٹی کانفرنس میں شرکت پر لوک سبھا میں جاری بحث کے دوران اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ حکمراں کانگریس پارٹی کی حلیف جماعتوں نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے پاکستان کے سامنے خودسپردگی کردی ہے اور شرم الشیخ میں جاری مشترکہ بیان میں بلوچستان کا ذکر کرکے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلی ہے۔ اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کہا اب جہاں کہیں بھی بھارت دہشت گردی کا معاملہ اٹھائے گا پاکستان بلوچستان کی بات کرے گا۔
وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ان الزامات کی تردید کی کہ مشترکہ بیان میں انہوں نے بھارت کے عوام کی اعتماد شکنی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بھارت کے موقف کو کسی بھی صورت میں کمزور نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت ہی مسئلے کے حل کا صحیح راستہ ہے اور اگر پاکستان کے ساتھ تعاون میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے دونوں ہی ملکوں کا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ٹرسٹ اینڈ ویریفائی کی اصول پر آگے بڑھے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی سرزمین سے انتہاپسندی کو فروغ ملتا ہے اور بھار ت اس سے متاثر ہوتا ہے تو ان تمام باتوں کے باوجود ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا یہی موقف ہے اور ہم اس پر قائم ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں بھارت کے خلاف پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے سامنے یہ واضح کردیا ہے کہ ممبئی حملوں کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنا ہی پڑے گی۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ پاکستان نے بہر حال کچھ اقدامات کئے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے ذکی الرحمان لکھوی اور پانچ دیگر لوگوں کی گرفتاری کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان نے بھارت میں کسی دہشت گردانہ کارروائی کی بات تسلیم کی ہے اور اس کے خلاف کارروائی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاہم یہ کافی نہیں ہے۔انہوں نے کہا :’’میں نے پاکستانی رہنماؤں کو یہ بتا دیا ہےکہ صرف یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ پاکستان خود بھی دہشت گردی سے متاثر ہے۔ انہیں اپنی سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور وہ جس طرح انتہاپسندوں کے خلاف اپنے مغربی سرحد پر کارروائی کررہے ہیں اسی طرح مشرقی سرحدوں پر بھی کارروائی کرنی ہوگی۔‘‘
بلوچستان کے معاملے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا اس سلسلے میں جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور مشترکہ بیان کا جو مطلب نکالا جارہا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ انہوں نے کہا : ’’ہم نے پاکستانی رہنماؤں کو یہ بتا دیا ہے کہ ہمیں پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اورنہ ہی پاکستان کے سلسلے میں ہماری کوئی غلط نیت ہے۔ہمارا یقین ہے کہ ایک مستحکم، پرامن اور خوشحال پاکستان خود بھارت کے مفاد میں ہے۔‘‘
انہوں نے مزیدکہا :’’ہم پاکستان سے شفافیت کی امید رکھتے ہیں اور ہم نے پاکستانی وزیر اعظم سے کہا ہے کہ اگر ان کی پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں لیکن پاکستان نے ابھی تک کوئی ثبوت نہیں پیش کیا ہے۔‘‘
قبل ازیں خارجہ سکریٹری شیو شنکر مینن نے کانگریسی اراکین پارلیمان کو مشترکہ بیان کے سلسلے میں بریف کیا اور بیان کے سلسلے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ خیال رہے کہ مشترکہ بیان پر کانگریس پارٹی اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی آئی تھیں۔ کانگریس پارٹی نے کوئی واضح بیان نہیں دیا اور کہا تھا کہ وزیر اعظم کے بیان سے ہی سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
اس موضوع پر بحث کے دوران کانگریس پارٹی کے ایک رکن پی سی چاکو کو چھوڑ کر حکومت کی تمام حلیف جماعتوں کے اراکین نے مشترکہ بیان پر نکتہ چینی کی۔ سماج وادی پارٹی کے صدر او رسابق وزیر دفاع ملائم سنگھ یادو نے کہا کہ وزیر اعظم خواہ کیسی بھی صفائی دیں ملک بھر میں یہ غلط پیغام گیا ہے کہ بھارت دباؤمیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کامیاب خارجہ پالیسی وہی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ ملکوں سے دوستی ہو۔ انہوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا :’’وہ یہ بتائیں کہ کون سا پڑوسی اس وقت ہمارا دوست ہے۔‘‘
رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت : عاطف توقیر