1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ’زبردستی‘ ملک واپسی پر تنقید

13 فروری 2017

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام افغان مہاجرین کی ملک بدری کے لیے انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے علاوہ ان سے برا سلوک بھی برت رہے ہیں۔ اس ادارے نے مناسب آواز بلند نہ کرنے پر UNHCR کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/2XS7s
Afghanistan Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے انسانی حقوق کے سرکردہ ادارے ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی زبردستی ملک بدری کی خاطر پاکستانی حکام ’غلط ہتھکنڈے‘ استعمال کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس کم ازکم چھ لاکھ افغان مہاجرین واپس اپنے وطن روانہ ہوئے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس رپورٹ کی تیاری کی خاطر ایسے مہاجرین کے انٹرویو کیے، جو پاکستان کو چھوڑ کر واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔

پاکستانی اور افغان مہاجرین کی ملک بدری، سری لنکا پر تنقید
میرا وطن کہاں ہے؟ پاکستان میں افغان مہاجر کی روداد
افغان مہاجر پاکستانی حکام کی بدسلوکی رپورٹ کریں، اقوام متحدہ

تیرہ فروری بروز پیر جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی زبردستی ملک بدری کی خاطر پولیس ان مہاجرین کے ساتھ روزانہ ہی استحصالی رویہ اختیار کر رہی ہے، بغیر وارنٹ گرفتار کر رہی ہے، مہاجرین کے  گھروں پر چھاپے مار رہی ہے اور افغان بچوں کے اسکول بند کر رہی ہے۔ ایسے مہاجرین نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا ہے کہ ان حالات میں ان کے پاس واپس وطن جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

76 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی یہ ایجنسی پاکستان سے افغان مہاجرین کی اس برے طریقے سے وطن بدری پر مناسب آواز بلند نہیں کر رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان سے افغان مہاجرین کی زبردستی واپسی کا یہ عمل مناسب نہیں ہے۔ تاہم یو این ایچ سی آر نے ایسے الزامات کو رد کر دیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی ان کے ملک جبراﹰ واپسی میں کوئی معاونت فراہم کر رہی ہے یا اس معاملے پر آواز بلند نہیں کر رہی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ محقق گیری سمپسن نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’کئی عشروں تک افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دینے کے بعد پاکستانی حکومت نے سن دو ہزار سولہ کے وسط میں ان کی زبردستی واپسی کا عمل شروع کیا تھا، جو دنیا بھر میں کسی ملک سے مہاجرین کی زبردستی واپسی کا سب سے بڑا آپریشن ہے۔‘‘

ایک چھبیس سالہ افغان مہاجر نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان کے گھر پر چھاپہ مار کارروائی کے نتیجے میں وہ اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ کابل واپس جانے پر مجبور ہوا۔ حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کی ڈیڈ لائن کو بڑھا کر رواں سال کے آخر تک کر دیا ہے۔ قبل ازیں مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی کی یہ ڈیڈ لائن مارچ تک تھی۔

کئی عشروں تک پاکستان میں دو ملین سے زائد افغان مہاجرین پناہ گزیں رہے، جن میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ پناہ گزین شامل تھے۔ افغانستان میں شورش کے باعث یہ لوگ اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے کئی علاقوں میں ابھی حالات سازگار نہیں ہوئے ہیں کہ ان مہاجرین کو ان کے وطن روانہ کیا جا سکے۔