پاکستان: توہینِ رسالت کے قانون پر سینیٹ کی کمیٹی بحث کرے گی
13 جنوری 2017پاکستان میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ سینیٹ میں انسانی حقوق کی کمیٹی جس کے وہ خود بھی رکن ہیں، آئندہ ہفتے سے توہینِ مذہب کے قوانین پر ابتدائی بحث کا آغاز کرے گی۔ یہ بات چیت اس معاملے پر ترتیب دی گئی ایک 24 سالہ پرانی رپورٹ کی سفارشات پر مبنی ہو گی۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں یہ پہلی بار ہو گا کہ جب کوئی پارلیمانی کمیٹی توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے رسمی تجویز پر غور کرے گی۔ بابر کے مطابق سینیٹ کی انسانی حقوق کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی اس حوالے سے اُس تجویز پر غور کرے گی جس میں کسی بھی شخص پر عائد توہینِ مذہب کے الزام کی چھان بین کو لازمی قرار دینے کی بات کی گئی ہے۔ اس تجویز کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ آیا توہینِ رسالت کا ارتکاب واقعی کیا گیا ہے؟
توہینِ مذہب کے قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد اپنی ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے اس قانون کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے روئٹرز کو بتایا کہ کمیٹی اس بات پر بھی بحث کرے گی کہ توہینِ مذہب یا رسالت کے مرتکب ہونے والے شخص کے لیے سزائے موت لازمی کرنے کی بجائے کیا عمر قید کی سزا مناسب ہو گی؟
پاکستان میں کئی قدامت پسند حلقے توہینِ رسالت کے قوانین پر تنقید کو بھی توہینِ رسالت ہی کے برابر خیال کرتے ہیں۔ سن 2011 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی اُن کے اپنے محافظ نے ان قوانین میں اصلاحات لانے کی بات کرنے پر ہلاک کر دیا تھا۔
اگر سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق توہینِ مذہب کے قانون کے حوالے سے کوئی سفارشات مرتب کرتی بھی ہے تو یہ قانون کے نفاذ میں تبدیلی لانے کے طویل عمل میں پہلا قدم ہو گا۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے اعداد وشمار کے مطابق سینکڑوں پاکستانی توہینِ رسالت کے الزام میں سزائے موت کے منتظر ہیں اور سن انیس سو نّوے سے اب تک قریب 65 افراد کو، جن میں وکلا، جج اور مدعا علیہان شامل ہیں، توہینِ رسالت کے الزام میں قتل کیا گیا ہے۔