پاکستان اور بھارت کے اعتدال پسند متحد ہوجائیں، پرویز مشرّف
7 مارچ 2009سابق پاکستانی صدر اور افواجِ پاکستان کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرّف نے خود کو امن کا علم بردار قرار دیا اور کہا کہ اپنے دورِ حکومت میں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے۔
پرویز مشرّف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیاجنوبی ایشیاء کو جوہری جنگ کا ’فلیش پوائنٹ‘ سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیاء کی ترقّی پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار تعلقات سے وابستہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ دونوں ملکوں کے پسماندہ اور کچلے ہوئے عوام کے لیے امن کے علم بردار ہیں۔
سابق پاکستانی صدر نے مشورہ دیا کہ دیر پا امن کے لیے پاکستان اور بھارت کو تمام تنازعات حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے اعتدال پسندوں کا متحد ہونا ضروری ہے تاکہ انتہا پسندوں کے عزائم کو شکست دی جاسکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کے اعتدال پسندوں کو رہنمائی کرنا چاہیے اور انتہا پسندوں کو امن کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے نہیں دینا چاہیے۔
آٹھ سال تک برسرِ اقتدار رہنے والے سابق پاکستانی صدر پرویز مشرّف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام امن چاہتے ہیں مگر سخت گیر عناصر اس راستے میں رخنہ ڈالتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے عوام زبردستی کے زریعے امن نہیں چاہتے ہیں اور ان پر امن مسلّط نہیں کیا جاسکتا۔
پرویز مشرّف نے کہا کہ بھارت میں سخت گیر عناصر حاوی ہیں اور پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور پاکستانی سوسائٹی کے خلاف زرائع ابلاغ اور دیگر زرائع میں بہتان تراشی کی مہم چلائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پرویز مشرّف نے کہا کہ یہ مسئلہ پاکستانی عوام کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور بھارتی قیادت کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اسے ’کچھ لو کچھ دو‘ کی پالیسی ہی اختیار کرنا پڑے گی۔